الیکشن ایکٹ میں کسی کو نا اہل قرار دینے کی کون کون سی صورتیں شامل کی گئی ہیں، وہ کس حد تک قابل عمل ہیں اور ان پر کتنا عمل ہو رہا ہے اور یہ ساری مشق اس ملک کے سیاسی مزاج کی صورت گری میں کیسا تباہ کن کردار ادا کر رہی ہے۔ آئیے آج ان سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے مطابق اگر کوئی شخص الیکشن ایکٹ میں دیے گئے جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے اس پرٹربیونل کی طرف سے سزا سنا دی جاتی ہے اور پھرکمیشن اس شخص کی نا اہلی کا حکم جاری کر دے تو وہ شخص صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی یا سینٹ کا انتخاب لڑنے کے اہل نہیں رہے گا اور اگر وہ کسی ایوان کا رکن ہو تو اس صورت میں اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی اور وہ نا اہل قرار پائے گا۔
نااہلی کی اس شکل میں مدت کا تعین بھی کر دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق نا اہلی کی یہ مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ بظاہر یہ ایک بہتر کاوش معلوم ہوتی ہے کہ کم از کم اس میں مدت کا تعین تو کر دیا گیا ہے لیکن قانون کا متن دیکھیں تو ایسے ایسے مقامات آہ وفغاں سے واسطہ پڑتا ہے کہ یہ خوش فہمی بھی دم توڑ دیتی ہے۔
جن جرائم کے ارتکاب پر الیکشن ایکٹ کی دفعہ 232 کے تحت پانچ سال تک نا اہلی کی سزا دی جا سکتی ہے ان جرائم کی تفصیل الیکشن ایکٹ کے باب8 کی دفعہ 132 اور باب 10 میں بیان کر دی گئی ہے۔ اس باب کا عنوان تو خاصا تسلی بخش ہے: جرائم، سزائیں اور طریقہ کار۔ لیکن تفصیل پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان قوانین کا تعلق بھی خیالات کی دنیا سے زیادہ اور زمینی حقائق سے کم ہے، نیز یہ کہ ان قوانین کو بھی برائے وزن بیت لکھ تو دیا گیا تا کہ بھلا لگے اور سند رہے لیکن ان پر عمل درآمد کا بھاری پتھر اٹھانے کا کسی نے کم ہی سوچا ہے۔
پہلا جرم جس پر الیکشن ایکٹ کے تحت تین سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے، ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتاہے اور نا اہلی بھی، انتخابی اخراجات کی متعین حدود سے تجاوز ہے۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 132(2) کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران کے لیے اخراجات کی ایک حد طے کر دی گئی ہے۔ وہ کسی بھی شکل اور صورت میں اس حد سے زیادہ اخراجات نہیں کر سکتے۔ اس کے مطابق:
صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن اخراجات کی حد 20 لاکھ ہے۔ اخراجات 20 لاکھ سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔
قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن اخراجات کی حد 40 لاکھ ہے۔
سینیٹ کی نشست پر الیکشن کے لیے اخراجات کی حد 15 لاکھ روپے ہے۔
قانون کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ اخراجات امیدوار نے اپنی جیب سے کیے ہوں۔ الیکشن ایکٹ کے باب 8 کے آغاز میں ہی یعنی دفعہ 132 میں یہ اصول طے کر دیا گیا ہے کہ یہ اخراجات امیدوار خود کرے، اس کی جگہ اس کی سیاسی جماعت کرے یا اس کی جگہ کوئی اور شخص کرے، کسی بھی صورت میں یہ اخراجات اس مقررہ حد سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے، اسی شق کی ذیلی دفعہ 2 میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ بھلے یہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہوں، ایڈورٹزمنٹ اور تشہیری مہم کے اخراجات ہوں، سٹیشنری اور پوسٹرز وغیرہ کے خرچے ہوں، یا کسی اور چیز کے اخراجات ہوں انہیں ' الیکشن اخراجات ' ہی سمجھا جائے گا۔ اور بھلے کوئی بھی آدمی اس مد میں خرچ کرے یہی سمجھا جائے گا کہ یہ خرچ امیدوار نے کیا ہے اور اگر یہ مقررہ حد سے تجاوز کر جائے گا تو یہ قانون شکنی سمجھی جائے گی۔
ذیلی دفعہ 4 میں لکھا ہے کہ ہر امیدوار ہر قسم کے خرچ کی ادائیگی کا رسیدوں، بل، وغیرہ کی شکل میں ثبوت جمع رکھنے کا پابند ہوگا۔ صرف اس خرچے کا ثبوت رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی جو ایک ہزار سے کم ہو۔ ایک ہزار سے زیادہ کی رقم جہاں بھی خرچ ہوگی اس کا ثبوت رکھنا لازمی ہوگا۔
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 133میں کہا گیا ہے کہ امیدوار کے لیے لازم ہوگا کہ وہ الیکشن اخراجات کے لیے الگ سے ایک بنک اکائونٹ کھولے۔ ذیلی دفعہ 2 میں کہا گیا ہے کہ الیکش کے تمام اخراجات صرف اور صرف اس اکاؤنٹ سے ادا کیے جائیں۔ ذیلی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹ میں صرف اتنی ہی رقم رکھی جا سکتی ہے جتنی رقم کی اس نشست پر الیکشن کے اخراجات کی اجازت ہے۔ یعنی صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے تو اس کے اکاؤنٹ میں 20 لاکھ سے زیادہ رقم نہیں ہو سکتی، قومی اسمبلی کا امیدوار ہے تو اس کے اکاؤنٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم 40 لاکھ ہو سکتی ہے اور سینیٹ کا امیدوار ہے تو اس کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ سے زیادہ رقم نہیں ہونی چاہیے۔
بظاہر یہ بڑے ' شاندار' قوانین ہیں۔ انہیں پڑھنے والا سوچتا ہے کہ قانون سازوں نے تو الیکشن کو سادہ، سستا اور عام آدمی کی دسترس میں رکھنے کے لیے آخری کوشش کر دی ہے۔ لیکن جب ہم اس قانون کے اطلاق کی طرف بڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہ قانون بھی نہ صرف ناقص اور نمائشی ہے بلکہ اس میں ایسے تضادات بھی ہیں جو اسے بے اثر کر دیتے ہیں اور اس کی کوئی افادیت باقی نہیں رہتی۔
یہ قانون اگر الیکش کمیشن نے کسی ضابطے کی شکل میں جاری کیا ہوتا تو یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ شاید یہ کسی ایسے بیوروکریٹ نے وضع کیا ہے جسے زمینی حقائق کا علم ہی نہیں لیکن یہ قانون پاکستان کی پارلیمان نے بنایا ہے اور یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ رکن پارلیمان وہ بن سکتا ہے جو سمجھ دار ہو، پارسا ہو، نیک ہو، دیانت دار ہو، امین ہو۔ اتنی خوبیوں والی پارلیمان جب یہ قانون بنا رہی تھی تو کیا وہ خود کو اور سماج کو دھوکہ دے رہی تھی یا وہ واقعی اس قانون کو قابل عمل سمجھتی تھی اور اس پر عمل کرنا چاہتی ہے؟
یعنی ان معزز اراکین پارلیمان میں سے کتنے ایسے تھے جنہوں نے واقعی الیکشن میں اتنے ہی اخراجات کیے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ حقیقت کی دنیا میں اتنے پیسوں سے الیکشن لڑا جا سکتا ہے؟ ایک آدمی جو الیکشن جیت کر پارلیمان میں پہنچتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ انتخابی اخراجات کتنے ہوتے ہیں اور ان کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟
ایک خوش گمانی یہ ہو سکتی ہے کہ یہ معزز اراکین زمینی حقائق اور ان کی ساری قباحتوں سے واقف ہونے کی وجہ سے اس کلچر کو بدل دینا چاہتے ہوں۔ ان کی خواہش ہو کہ انتخابی عمل میں دولت کے کردار کو محدود کرتے ہوئے متوسط طبقے کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی جائے، اس لیے انہوں نے یہ مثالی قانون سازی کی ہو۔ (جاری ہے)