پچھلے دنوں پارلیمان میں ایک بل متعارف کرایا گیا۔ یہ بل فی الحال قانون تونہ بن سکا لیکن اس کے مندرجات ہمیں ضرور پڑھنے چاہئیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ کیسے ہمارے قانون ساز ایک بنیاد پرست اور انتہا پسند قانون سازی کرنے لگے تھے۔ اس قانون کی تفصیلات پڑھیے اورتصور کیجیے کہ اگر یہ قانون بن جاتا تو ہم کہاں کھڑے ہوتے۔
مجوزہ قانون کی دفعہ پانچ میں کہا گیا کہ صدر چونکہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا محض مسلمان ہونا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے تمام مکاتیب فکر کا سربراہ اور نگران اعلی بھی ہو۔ اس کے لیے تجویز کیا گیا کہ ملک میں تمام مساجد کا ایک الگ سے بورڈ بنے جو مذہب کی نمائندگی کرتا ہو، اس کا نام مساجد آف پاکستان رکھا جائے اور صدر مملکت اس ادارے یعنی مساجد آف پاکستان کے سرکاری سربراہ مقرر ہوں۔
قانون کی دفعہ سات میں کہا گیا کہ صدر کا صرف مسلمان ہونا کافی نہیں۔ اس لیے آئین پاکستان میں ترمیم کی جائے اور صدر کا کسی خاص مکتب فکر اور فرقے سے تعلق ہونا بھی لازمی قرار دیا جائے۔ اس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں کافی بحث ہوئی۔ ایک تجویز یہ تھی کہ چونکہ ملک میں بریلوی مکتب فکر کی اکثریت ہے اور انہیں سواد اعظم کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے صدر پاکستان کا بریلوی مسلمان ہونا لازم قرار دیا جائے۔ اس تجویز کو دیگر مذہبی جماعتوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ کچھ اراکین کا خیال تھا کہ چونکہ ملک میں جاری سیاسی جدوجہد میں مولانا فضل الرحمن صاحب کا ایک خاص مقام ہے اور وہ اس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ بھی ہیں تو نظام سیاست میں ان کی حیثیت اور مقام کا تقاضا ہے کہ صدر پاکستان کے لیے دیوبندی ہونا لازم قرار دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس پر اختلاف صرف جے یو آئی کو نہ تھا بلکہ دیگر مذہبی اکابرین کو بھی ان دونوں تجاویز سے اختلاف تھا۔
اس وقت آئین کے تحت پوزیشن یہ ہے کہ صدر مملکت جب اپنے منصب سنبھالنے لگتا ہے تو اس سے حلف لیا جاتا ہے۔ یہ حلف چیف جسٹس آف پاکستان لیتے ہیں۔ اس مجوزہ بل کی دفعہ آٹھ میں آئین کے اندر ایک اور ترمیم بھی تجویز کی گئی۔ کہا گیا کہ حلف ایک مذہبی رسم ہے، اس لیے اس کی ادائیگی کے لیے چیف جسٹس کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کے لیے کسی مذہبی رہنما کی خدمات لی جائیں۔ اس ضمن میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے تین تجویز پیش کیں:
پہلی تجویز یہ تھی کہ صدر کا حلف لینے کے لیے چیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے سینئر ترین جج کو مدعو کیا جائے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ یہ کام اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین کے ذمے لگایا جائے۔ تیسری تجویز یہ تھی کہ صدر کے حلف کے لیے کسی بین الاقوامی سطح کی مذہبی شخصیت سے درخواست کی جائے کہ وہ تشریف لائیں اور صدر پاکستان سے ان کے عہدے کا حلف لیں۔ پہلی دو تجاویز رد کر دی گیں۔ تیسری تجویز کو مشکل اور پیچیدہ قرار دیا گیا کہ شاید بیرون ملک سے کسی معزز اور محترم مذہی شخصیت کو مدعو کرنے میں زیادہ وقت لگے ا ور اس سے آئینی عمل تاخیر کا شکار ہو جائے۔ چنانچہ متبادل تجاویز پر غور ہونے لگا۔
ایک صورت یہ سامنے آئی کہ ملک میں ایک شیخ الاسلام کا سرکاری منصب قائم کیا جائے جو ملک میں مذہب کا آئینی نمائندہ ہو۔ اور ریاست کے تمام آئینی امور جن کا تعلق مذہب سے ہو شیخ الاسلام کی نگرانی میں سر انجام دیے جائیں۔ شیخ الاسلام ہی صدر پاکستان سے ان کے عہدے کا حلف لیا کریں۔
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ ایک میں لکھا تھا کہ جب صدر اپنے عہدے کا حلف لے لیں تو شیخ الاسلام انہیں باقاعدہ طور پر اسلام کی اقدارکے محافظ، کا ٹائٹل عطا فرمائیں۔ اس سند کے بغیر صدر محترم ایوان صدر میں نہیں جا سکیں گے۔
بل کی دفعہ نو میں لکھا تھا کہ حلف برداری کے وقت صدر محترم ایک چمچ تھام کر آئیں گے، جس میں کوئی متبرک پانی یا اس طرح کی کوئی چیز ہوگی تا کہ محفل بابرکت ہو جائے۔ صدر کے پاس ایک Orb پڑا ہو، جو اس بات کی نشانی ہو کہ اس کو حکومت کا اختیار اللہ نے دیا ہے اور یہ اللہ کے اختیارات کا نمائندہ بن کر ایوان صدر میں جا رہا ہے۔
مجوزہ بل کی دفعہ دس میں لکھا ہے کہ حلف کی تقریب کے وقت مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی کوئی یاد گار یا علامت تقریب میں ہونا ضروری ہے۔ ایسی یاد گار کے بغیر تقریب نہیں ہوگی اور حلف نہیں لیا جائے گا۔ حلف لیا جاتا ہے تو اسے آئین سے انحراف تصور کیا جائے گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج کے دور میں اس طرح کا بل ہماری پارلیمان میں کیسے پیش کیا گیا۔ آپ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ یہ بل کس نے پیش کیا۔ آپ یقینا اس بات پر بھی پریشان ہو ں گے کہ اس بل کے بعد دنیا میں ہمارے سافٹ امیج کا کیا بنے گا اور اقوام عالم ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہوں گی۔
آپ کی پریشانی بجا ہے مگر میں آپ سے عرض کروں کہ ایساکوئی بل پاکستان کی پارلیمان میں پیش نہیں ہوا۔ آپ خاطر جمع رکھیں پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ البتہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ برطانیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
برطانیہ کا سربراہ ریاست سیکولر نہیں ہوتا عیسائی ہوتا ہے۔ صرف عیسائی ہونا کافی نہیں، اس کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ اس کا تعلق عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقے سے ہو۔ وہ اگر کیتھولک ہے یا اس نے کسی کیتھولک سے شادی کر رکھی ہے تو وہ اس منصب کے لیے نا اہل ہے۔ یہ بھی کافی نہیں بلکہ وہ سرکاری طور پر چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بھی کافی نہیں بلکہ وہ سرکاری طور پر عیسائیت کا خادم اور محافظ بھی ہوتا ہے۔ اس کے پاس جو چمچ ہوتا ہے اس میں یروشلم سے منگوایا ہوا مقدس تیل ڈالا جاتا ہے جو ان کے صلیبی بیانیے کا مرکز و محور ہے۔ اس کےOrb پر صلیب بنی ہوتی ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ اسے اقتدار اللہ نے دیا ہے۔ اور یہ زمین پر اللہ کے اقتدار کی نشانی ہے۔
برطانیہ کے ہائوس آف کامنز کی دستاویزات کے مطابق بادشاہ کی تاج پوشی کی رسم اپنی روح میں سیاست یا اقتدار سے نہیں عیسائیت سے جڑی ہے اور اسے عبادت ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دستاویز بتاتی ہے کہ اس تقریب کے منتظمین میں چرچ آف انگلینڈ بھی شامل ہے۔ بشپ آف کنٹر بری کو اس میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ بادشاہ سے حلف وہی لیتے ہیں۔
برطانیہ اس سب کے باوجود جمہوریت بی بی کی اماں جی ہے، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھتا، وہ نہ انتہا پسند ہے نہ بنیاد پرست، لیکن پاکستان میں سربراہ ریاست کے لیے صرف مسلمان ہونے کی شرط پر یہاں لوگوں کے مزاج برہم ہو جاتے ہیں۔ وہاں تاج پوشی کی رسم اصل میں عیسائی عبادت ہے اور اس پر کوئی بد مزہ نہیں ہوتا۔ یہاں ہمارے ہاں مذہب کا نام لے لیے جائے تو سینہ کوبی شروع ہو جاتی ہے کہ ہائے اب ہمارے سافٹ امیج کا کیا بنے گا۔