بھارت نے جو کرنا تھا کر دیا۔ سوال یہ ہے اب ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں؟
کشمیر کے مسئلے پر، جذباتی اعتبار سے میں بھی وہیں کھڑا ہوں جہاں ایک عام پاکستانی کھڑا ہے۔ میں مسئلہ کشمیر کے مثالی حل پر یقین رکھتا ہوں اور میری خواہش ہی نہیں حسرت بھی ہے کہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہو۔ لیکن میں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا کہ مثالی حل پر اصرار اگر محض دکھوں میں اضافہ کر رہا ہو اور آپ کے آپشنز لمحہ لمحہ محدود تر ہوتے جا رہے ہوں تو اس صورت میں امکانی حل کی طرف بڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔ میرے پیش نظر اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک امکانی حل کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
بھارت کے حالیہ اقدام کی ممکنہ طور پر تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس نے ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کے بیان کے بعد فرسٹریشن کے عالم میں یہ قدم اٹھایا ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ اس نے عالمی برادری یا کم از کم دو تین اہم ممالک کو اعتماد میں لے لیاہے اور اب وہ اسرائیل کی طرز پر وادی میں ہر چیز کو کچل دینا چاہتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ پاکستان کیا سوچ رہا ہے۔ تیسری شکل یہ ہو سکتی ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لے لیا گیا ہو اور ایک وسیع تر مشاورت کے بعد ایک امکانی حل کی طرف پیش قدمی کی جا رہی ہو۔ جب تک واضح شواہد دستیاب نہ ہوں حتمی طور پر کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔
بھارت ایک قوت ضرور ہے لیکن اتنی بے لگام نہیں کہ ٹرمپ کے ثالثی کے بیان کے ایک ہفتے بعد وہ اس دیدہ دلیری سے پیغام دے کہ ثالث کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں جب کہ اسے یہ بھی معلوم ہو کہ افغانستان میں امریکہ کے لیے پاکستان کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان معاشی بحران سے ضرور دوچار ہے لیکن نہ پاکستان فلسطینی اتھارٹی ہے نہ ہی بھارت اسرائیل ہے۔ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور کشمیر ایک نیوکلیئر فلیش پوائینٹ ہے۔ پاکستان کو چیلنج کرتے ہوئے کشمیر میں اتنی بھاری فوجی نفری داخل کر کے اس انداز سے قانون سازی کی کوشش کوئی ایسا قدم نہیں کہ اس سکون سے اٹھالیا جاتا۔ عالمی سطح پر ایک بھونچال آ جانا تھا اور خود پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا اسے نظر انداز کر دیتا۔ تاہم پاکستان کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ کسی ایسے عمل کا حصہ بن جائے جو کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس ان پر ٹھونسا جائے۔
ہر مسئلے کے دو حل ہوتے ہیں۔ ایک مثالی اور ایک امکانی۔ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ مثالی حل کی طرف بڑھا جائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں معاملات انصاف کی بنیاد پر کبھی بھی حل نہیں ہوئے۔ یہ زمینی حقائق ہوتے ہیں جو انہیں حل کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہم مسئلہ فلسطین کی شکل میں دیکھ چکے ہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ہو جو فلسطینیوں کے موقف درست نہ سمجھتا ہو لیکن اس سے اسرائیلی بربریت اور فلسطینیوں کی حالت زار میں کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ آپ کی اخلاقی قوت نہیں، یہ آپ کی مادی قوت ہوتی ہے جو فیصلے کرتی ہے اور مادی قوت فلسطینیوں کے پاس نہیں اسرائیل کے پاس ہے۔
بعض چیزوں کا تعلق اصول سے نہیں حکمت سے ہوتا ہے۔ اپنے مشاہدے اور تجربات سے آدمی سیکھتا ہے۔ 1947ء میں جب فلسطین تقسیم ہوا تو عربوں کو قریبا 45 فیصد دیا گیا۔ آج یہ سمٹ کر چند فیصد تک رہ گیا ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اسرائیل دو ریاستوں کے فارمولے کو بھی ماننے کو تیار نہیں اور مسلمان قیادت درخواستیں لیے دنیا میں پھر رہی ہے کہ ہم دو ریاستوں کے فارمولے پر تیار ہیں از رہ کرم اس پر عمل کروا دیجیے۔ ان کے آپشنز لمحہ لمحہ سمٹ رہے ہیں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے۔ دنیا کے مفادات ہماری نسبت اس کے ساتھ زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ او آئی سی ایک نمائشی ادارہ ہے۔ اقوام متحدہ بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ امریکہ کے ہاں بھی اصول نہیں مفادات کی روشنی میں معاملہ ہوتا ہے۔ کشمیریوں نے قربانی اور مزاحمت کی ایک داستان رقم کر دی ہے۔ لیکن آخر کب تک وہ وادی کو لہو سے غسل دیتے رہیں۔ اب یا تو مسلم دنیا اٹھے اور کشمیریوں کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت سے دو دو ہاتھ کر لے پھر جو ہو دیکھا جائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکتا توسوال یہ ہے پھر ان مظلوموں سے خیر خواہی کیا ہے؟ اپنے گھروں میں بیٹھ کر فیس بک پر سٹیٹس لگا کرکشمیریوں سے مقتل آباد کرتے رہنے کا مطالبہ یا ان کے لیے امن اور عافیت کی تلاش۔
پاکستان کے لیے موزوں یہ ہے کہ طاقت کا توازن بدلنے تک ایک پر امن سٹیٹس کو برقرار رکھا جائے لیکن شاید یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ ٹرمپ اپنے انداز سے معاملات حل کرنا چاہتا ہے۔ کشمیر پر اس کی ثالثی کی چین نے بھی تائید کی ہے۔ شاید عالمی طاقتیں اس نیوکلیر فلیش پوائنٹ کا اب حل چاہتی ہیں۔ اور دو ایٹمی قوتوں کے درمیان اس مسئلے کا حل مثالی نہیں، امکانی ہو گا۔ اب کوئی مسئلہ مقامی یا دو طرفہ نہیں رہا۔ یہ عالمی قوتوں کا ایک ڈیزائن ہوتا ہے جو ان کی صورت گری کرتا ہے۔ اس کی مزاحمت کے مقصود ہے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے اس کا میدان اب روایتی نہیں رہا۔ اپنی تعمیر کر کے اس قابل بننا ہو گا کہ اس ڈیزائن میں آپ کی اتنی افادیت ہو کہ آپ اس میں جوہری تبدیلی کروا سکیں۔
حالات کے جبر کے اس عالم میں دیکھنا یہ ہے کہ خود کشمیری اس پر کیا رد عمل دیتے ہیں۔ یہ آسان نہیں ہو گا کہ بھارت اس طرح قوت سے کشمیری سماج کو دبا لے۔ شدید رد عمل آئے گا۔ محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز قیادت یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ دوقومی نظریہ حقیقت تھا اور ان کی قیادت کا بھارت کی جانب جھکائو ایک غلط فیصلہ تھا۔ یہ رد عمل آنے والے دنوں میں بڑھے گا۔ طاقت اور بربریت سے اس رد عمل کو نہیں دبایا جا سکے گا۔