اہلِ دانش خفا ہیں کہ حکومت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کشمیر سے متعلق قرارداد کیوں نہ لا سکی اور میں یہ سوچ رہا ہوں اس بے معنی مشق میں اپنی توانائی ضائع ہی کیوں کی جاتی؟ کہا جا رہا ہے پاکستان کو اس قرارداد کے لیے 16 ممالک کی تائید درکار تھی اور اس میں ناکام رہنے کی وجہ سے یہ قرارداد پیش نہ کی جا سکی۔ میری رائے میں سولہ تو کیا بتیس ممالک کی تائید میسر ہوتی تب بھی اس قرارداد کو لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ا س قرارداد کے نتیجے میں جو مقصد حاصل ہونا تھا اس سے بڑا مقصد ہم اقوام متحدہ میں کچھ کہے اور کیے بغیر پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں۔
یہ الگ بات کہ پچھلے سال جب اقوام متحدہ میں یہ مقصد حاصل ہوا تو پاکستان میں کسی کے لیے یہ سرے سے کوئی خبر ہی نہ تھی۔ نہ اراکین پارلیمان کے لیے نہ ہی سینئر تجزیہ کاروں کے لیے۔ نہ کسی نے یہاں اس کا نوٹس لیا نہ کسی نے اس پر بات کرنا گوارا کیا۔ ہمارے ہاں کرنٹ افیئرز بس اس چاند ماری کا نام ہے کہ قبلہ شیخ رشید نے آج کیا مطلع کہا ہے، عزت مآب فواد چودھری کہاں غزل سرا ہوئے ہیں اور خواجہ آصف کی شعلہ بیانی کس کی دستار سے لپٹی ہے۔ اب یاروں کو خبر ہی نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کے حوالے سے ایک غیر معمولی پیش رفت پہلے ہی ہو چکی ہے، چنانچہ وہ اس بات پر برہم ہیں کہ پاکستان نے پھر سے پہیہ ایجاد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ پہیہ ایجاد ہو چکا ہے اب آ گے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے 2018ء اور 2019ء میں کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی پر رپورٹس جاری کیں۔ امور کشمیر کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور اقوام متحدہ کی یہ رپورٹس غیر معمولی طور پر خوش آئند ہیں۔ ان رپورٹس میں نہ صرف بھارت کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کی گئی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی سفارشات بھی پیش کر دیں کہ بھارت کو اب کیا کچھ کرنا چاہیے۔ آئیے ہم ذرا اس رپورٹ کا جائزہ لے لیتے ہیں جو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن کے دفتر سے 14 جون 2018ء کو جاری کی گئی۔ یاد رہے یہ رپورٹ جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد ((48/141میں دیے گئے مینڈیٹ کی روشنی میں تیار کی گئی۔ آج فیس بک پر برہان وانی کا ذکر کریں تو اکائونٹ معطل ہونے کا خطرہ ہوجاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا آغاز ہی برہان وانی سے ہوتا ہے۔ " ایگزیکٹو سمری" کا آغاز برہان وانی کی شہادت سے کیا گیا ہے۔ اس سمری کے پہلے پیراگراف میں لکھا گیا ہے کہ اگر چہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف اسی کی دہائی کے آخر اور نوے کی دہائی کے شروع میں اور پھر 2008ء اور 2010ء میں بھی مزاحمت ہوئی لیکن اس وقت جاری مزاحمت پہلے کی نسبت زیادہ شدید ہے اور اس میں مڈل کلاس کے نوجوان اور حتیٰ کہ خواتین بھی شریک ہیں۔ یوں گویا اقوام متحدہ نے کشمیر میں جاری حالیہ خالصتا مقامی تحریک کو اب تک کی مزاحمت کا سب سے جاندار دور قرار دیا۔ یہ معمولی بات نہیں۔ یہ الگ بات کہ پاکستان میں کسی کے پاس اس پر بات کرنے کا وقت نہ تھا۔ ہم اور ہی بکھیڑوں میں الجھے رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے یہ بھی لکھا کہ ہم نے پاکستان اور بھارت دونوں سے کہا کہ ہمیں کشمیر جا کر حقوق انسانی کی صورت حال کو دیکھنے دیا جائے۔ پاکستان نے کہا وہ اس کی اجازت دینے کو تیار ہے بشرطیکہ اقوام متحدہ کا کمیشن مقبوضہ کشمیر بھی جائے لیکن بھارت نے یکسر انکار کر دیا کہ وہ کسی کو نہیں آنے دے گا۔ چنانچہ کمیشن نے لکھا بھارت نے تعاون نہیں کیا۔
کمیشن نے لکھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے اور آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے شرمناک قوانین کا باقاعدہ حوالہ دیتے ہوئے ان قوانین کے خاتمے اور ترامیم کی بات کی۔ وہاں آئے روز لگائے گئے کرفیو کی مذمت کی، انٹر نیٹ اور فون سروس کی معطلی کو غیر انسانی رویہ قرار دیا، اجتماعی قبروں کا ذکر کیا، بچوں تک کو اٹھالے جانے اور عقوبت خانوں میں ان پر ظلم کی بات کی، عصمت دری کے واقعات کو تسلیم کیا گیا، بھارتی افواج کے ہاتھوں بے گناہ انسانوں کے قتل کی بات کی گئی اور پھر کچھ سفارشات پیش کی گئیں۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ سفارشات کیا تھیں؟رپورٹ میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل سے کہا گیا مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے جو مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی پر تحقیقات کرے۔ محض تحقیقات کی بات نہیں کی گئی بلکہ رپورٹ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے وہ قابل غور ہیں ۔
"to conduct a comprehensive independent international investigation"
روانڈا انکوائری کمیشن کے بعد یہ واحد مثال ہے کہ اقوام متحدہ نے کہیں اس طرح کے کمیشن بنانے کی سفارش کی ہو۔ یاد رہے کہ روانڈا کمیشن کے بعد روانڈا کے اعلی فوجی افسران پر بیرونی دنیا کے دروازے بند ہو گئے تھے ا ور وہ اچھوت بن کر رہ گئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ رپورٹ کے پیراگراف 39 میں کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے بھاتی پروپیگنڈے کی واضح الفاظ میں نفی کرتے ہوئے لکھا گیا کہ بھارت کہتا ہے شملہ معاہدہ کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادیں منسوخ ہو گئی ہیں جو درست بات نہیں ہے اور یہ قراردادیں آج بھی موجود ہیں۔ یہ رپورٹ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن کیا آپ نے پاکستانی پارلیمان یا میڈیا میں اس کا ذکر سنا؟ یقینا نہیں سنا ہو گا یہاں اور ہی ڈگڈگی بجتی ہے، یہاں کے رنگ ہی نرالے ہیں۔
اس رپورٹ کے بعد اور کیا باقی رہ گیا تھا جس کے لیے پاکستان حقوق انسانی کونسل میں قرارداد پیش کرواتا۔ جس محاذ پر آپ کامیاب ہو چکے ہوں وہ محاذ دوبارہ نہیں کھولا جاتا۔ یہ تو دشمن کو ایک اور موقع دینے والی بات ہوتی ہے۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔