جون جنگلوں کا مہینہ ہے۔ دوپہر میں جب لُو چلتی ہے توو جنگل بلاتا ہے۔ آوازیں دیتا ہے۔ دور تک جنگل میں جا کر کہیں ایک پہر آدمی بیٹھ جائے تواس پر سکینت اترتی ہے۔ جون مگر میرا ماہ حزن بھی ہے۔ 13 جون کو ملک معراج خالد کا انتقال ہوا اور 22 جون کو میرے نانا چودھری ظہیر الدین گوندل کا۔ نانا کے ہاں میں نے پرورش پائی اور ملک معراج خالدمیرے زمانہ طالب علمی میں یونیورسٹی کے ریکٹرتھے۔
ان دونوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اگر چہ براہ راست وعظ و نصیحت کرنا ان دونوں کے مزاج میں نہیں تھا لیکن یہ ایسے غیر محسوس طریقے سے تربیت کر دیتے تھے جیسے سورج کی کرن خاموشی سے کسی سیپ کے دل میں اتر جائے۔ دونوں کی کئی کہانیاں ہیں۔ نا قابل یقین۔ انسانی وجود میں کردار کیسے مجسم ہوتا ہے اور سادگی کیا ہوتی ہے، یہ اس جیسے کئی سوالوں کا جواب تھے۔
یہ وہ درس گاہیں تھیں جو سدا بہار ہوتی ہیں۔ ان درس گاہوں میں لمبے لمبے لیکچر اور تلخی میں لپٹی وعظ نہیں ہوتے تھے۔ ان میں دھیمی دھیمی رواں ندیوں جیسا تسلسل تھا۔ یہ فیض آج تک جاری ہے۔ کبھی کوئی مشکل صورت حال آن گھیرے تو آنکھیں بند کرتا ہوں اور سوچتا ہوں یہ لوگ زندہ ہوتے اور میں ان سے مشورہ کرتا تو وہ مجھے کیا تجویز کرتے۔ چشم تصور میں رہنمائی بن کر جواب اتر آتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضبط نفس اور مجاہدے کی ضرورت ہے جب کہ میں دوسری دنیا کا آدمی ہوں۔
جون ہی کی مہینے میں سعدیہ قریشی صاحبہ کی کتاب موصول ہوئی: کیا لوگ تھے۔ بتا یا گیا کہ یہ ان مشاہیر کا تذکرہ ہے جو اپنے حصے کی شمعیں جلا کر رخصت ہو چکے۔ یعنی یہ کتاب اس مہینے میں مجھ تک پہنچی جو ایسی کتاب پڑھنے کے لیے موزوں ترین مہینہ ہے۔ ابتدائیے میں سعدیہ قریشی لکھتی ہیں : میں خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہوں کہ میں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان، سید علی گیلانی اور لاوارثوں کے ایدھی بابا اور اماں بلقیس ایدھی کے عہد میں سانس لیا۔ یہ وہ نایاب اور قدآور شخصیات ہیں جو آنے والے زمانوں کے لیے داستانوں کے لازوال کردارو ں میں ڈھل جائیں گی۔ یہ مختصر تحریریں ان بڑی شخصیات کے حوالے سے پزیرائی کے ان بے بہا احساسات کے گلیشیر کا وہ اوپری حصہ ہیں جسے محاورتا ٹپ آف دی آئس برگ کہتے ہیں۔ اور جس کو مکمل دیکھنے کے لیے منجمد جھیل کے اندر اترنا پڑتا ہے۔
سعدیہ قریشی صاحبہ کی تحریر میں ویسے ہی روایات کے سارے ذائقے گندھے ہوتے ہیں، بچھڑ جانے والے مشاہیر پر ان کی تحریر کا تو پھر گداز ہی الگ ہے۔ کسی بھی کتاب کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ناول کی بات اور ہے مگر ناول اب کون پڑھے۔ باقی کتابوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں مصنف کی ترتیب سے نہیں، اپنی ترتیب سے پڑھتا ہوں۔ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، جو حصہ زیادہ دلچسپ لگا پہلے وہ پڑھ لیا۔ مختلف مشاہیر پر لکھی یہ کتاب اٹھائی تو سب سے پہلے میں نے انہی شخصیات کو تلاش کرنا شروع کیا جن کا ذکر سعدیہ قریشی صاحبہ نے اپنے ابتدائیے میں کیا ہے۔
سر ورق پر ڈاکٹر اے کیو خان، محترمہ بے نظیر بھٹو، نیلسن منڈیلا، منو بھائی منیر نیازی، احمد فراز، وغیرہ کی تصاویر تو نظر آئیں مگرسید علی گیلانی کی تصویر نہیں تھی۔ لکھنے والے کی علی گیلانی سے وابستگی نہ ہو تو الگ بات ہے لیکن جب لکھاری کا یہ خیال ہے کہ وہ خوش قسمت ہیں علی گیلانی کے عہد میں سانس لیا تو پھر یہ سرورق ادھورا ہے۔ گیلانی صاحب کی تصویر جب تک اس کا حصہ نہیں بنتی یہ سرورق ادھورا ہی رہے گا۔ اس عہد کی یہ کہانی نا مکمل ہی رہے گی۔
ہے تو یہ دخل در نا معقولات میں سے ہی، لیکن سرورق پر اس عہد ساز ہستی کی تصویر بھی ہونی چاہیے تھی لکھاری جس کے عہد میں سانس لینا باعث اعزاز سمجھے۔ سرورق پر ہونے نہ ہونے سے فرق کوئی نہیں پڑتا۔ رسم ہی سی ہے مگر رسم تو ہے نا۔ سعدیہ قریشی صاحبہ کی تحریروں کو زبان ملتی تو وہ کہتیں کہ سرورق کے رنگ ارشاد حقانی صاحب کے بغیر بھی ادھورے ہیں۔ جس احترام، محبت اور تعلق خاطر کا تذکرہ حقانی صاحب کے بارے میں کتاب میں ملتا ہے، اس کا حق تھا کہ وہ محبت سرورق میں بھی ظہور کرتی۔
حقانی صاحب کے بارے میں سعدیہ قریشی صاحبہ کی تحریر جہاں محبت و احترام کے رنگ لیے ہوئے ہے ہیں چونکا دینے والی بھی ہے۔ جب وہ ان واقعات کا ذکر کرتی ہیں کہ کیسے حقانی صاحب موت کو دبے پائوں اپنی طرف آتا دیکھ رہے تھے اور کیسے اپنے معاملات نبٹا رہے تھے تو حیرتوں کا جہان آباد ہو جاتا ہے۔
سعدیہ قریشی لکھتی ہیں کہ حقانی صاحب اپنی سوانح حیات مرتب کر رہے تھے تو اس کی اشاعت اور تقریب رونمائی پر بات ہونے لگی۔ حقانی صاحب کہنے لگے: کتاب تو اگلے سال ستمبر سے پہلے نہیں آ سکتی۔ یعنی یہ میری زندگی میں نہیں آ ئے گی کیونکہ میں مارچ سے پہلے اس دنیا سے چلا جائوں گا۔ اور میں بہت خوش ہوں کہ میں جا رہا ہوں۔
یہی نہیں بلکہ حقانی صاحب نے واصف ناگی صاحب کو منع کر دیا کہ کتاب کے انتظامات نہ کریں کیونکہ مارچ میں وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گے۔ سعدیہ صاحبہ لکھتی ہیں ایک روز انہوں نے مجھے بلایا اور کہا میں نے آپ کے کالموں کی کتاب کے لیے اپنی رائے لکھ دی ہے۔
حقانی صاحب میں کون سا کتاب چھپوا رہی ہوں؟ آپ کی کتاب جب آئے گی تو میں اس دنیا میں نہیں ہو ں گا اسی لیے ابھی لکھ دیا ہے۔
اس کتاب پر میں اپنے محسوسات کالم کی تنگنائے میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ سراپا سوز ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی یاد میں لکھے کالم کے ابتدائیے کو پڑھ لیجیے: " حیرت زدہ ہوں ستائیس دسمبر کی شام جنرل ہسپتال راولپنڈی میں بے نظیر کو موت آئی یا ایک نئی زندگی نے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اس شام وہ موت کی وادی میں کیا اتریں کہ لاکھوں کروڑوں دلوں میں اتر گئیں۔ راحی بانو پر لکھی تحریر بھی کسی نوحے سے کم نہیں۔
روحی بانو اپنے اکلوتے بیٹے کی نا گہانی وفات کے صدمے میں ہسپتال داخل ہیں۔ ہسپتال کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایک خاتون نے مصنفہ کا بازو پکڑ لیا اور پوچھا کیا تم میرے بیٹے سے شادی کرو گی؟ اس ایک فقرے میں ممتا کے کتنے دکھ مجسم ہیں، یہ بیان سے باہر کی چیز ہے۔ اس درد کو کوئی ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اسے سمجھنا کسی اور کے بس کی بات ہی نہیں۔
کتنے دن ہو گئے، میں یہ کتاب پڑھ رہا ہوں۔ اٹھاتا ہوں پڑھتا ہوں، رکھ دیتا ہوں۔ یہ ایک نشست میں پڑھنے والی کتاب نہیں ہے۔ یہ ایک عہد کا دکھ ہے اسے پڑھنے کے لیے بھی زمانہ چاہیے۔ یہ ایک نوحہ ہے جو سوگوار کر دیتا ہے۔ یہ وقت کی دھول میں لپٹی کہانی ہے جو ان دیکھی راہوں کی خبر دیتی ہے۔