مہاراجہ کے بھارت سے الحاق کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اس ضمن میں دو نکتے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اول: کیا مہاراجہ کی الحاق کرتے وقت یہ حیثیت تھی کہ وہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہوئے کسی ریاست سے معاملہ کرتا؟ دوم: الحاق کے بعد کیا کشمیریوں کا حق خود ارادیت ساقط ہو چکا ہے اور کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے؟
پندرہ اگست 1947 کو مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ " سٹینڈ سٹل، ایگریمنٹ کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گیارہ اگست 1947 کو مہاراجہ نے اپنے وزیر اعظم رام چندرا کاک کو معزول کر کے نظر بند کردیا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے آرمی چیف، چیف سیکرٹری اور پولیس کے سربراہ کو بھی برطرف کر دیااور ان کی جگہ اپنے خاندان کے لوگ لا کر بٹھا دیے۔ ایسا کیوں ہوا؟یہ ایک طویل کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رام چندرا کاک بھارتی قیادت کی نظر میں مشکوک تھا اور اس کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ اس کی اول ترجیح خود مختار کشمیر ہے اور یہ ممکن نہ ہوا تو یہ پاکستان کے ساتھ الحاق کو ترجیح دے گا۔ " آتش چنار، کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عبداللہ بھی رام چندرا کاک کو " پاکستانی ایجنٹ، سمجھتا تھا۔ اب جب وزیر اعظم کے ساتھ چیف سیکرٹری، آرمی چیف اور پولیس سربراہ بھی برطرف ہو گئے تو گویا وہ بھی کسی درجے میں " پاکستانی ایجنٹ، قرار پائے۔
گویانصف حکومت تو ٹھہری" پاکستانی ایجنٹ" (لیکن یہ بہر حال ان کا ایک انتظامی فیصلہ تھا، بعد میں تو صورت حال کی نوعیت ہی بدل گئی) اب آگے چلیے۔ مہاراجہ کے خلاف ایک خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔ مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور پونچھ سے جہاں ستر ہزار سابق فوجی موجود تھے بغاوت شروع ہو گئی۔ چند ہی دنوں میں عالم یہ تھا کہ پونچھ شہر کو چھوڑ کر سارا صوبہ مجاہدین کے قبضے میں تھا۔ مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق 26 اکتوبر کو کیا جب ریاست پر اس کی عملداری ختم ہو چکی تھی۔ سردار ابراہیم خان نے تو اس سے بہت پہلے 19 جولائی کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد پاس کر دی تھی۔ یاد رہے کہ یہ کوئی خفیہ اجلاس نہ تھا یہ علی الاعلان سردار ابراہیم کے گھر میں منعقد ہوا تھا۔ مہاراجہ نے اس قرارداد کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور باغیوں نے مہاراجہ کی فوج کا صفایا کر کے 24 اکتوبر کو ریاست آزاد کشمیر کے قیام کا اعلان کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سردار ابراہیم کو بطور صدر آزاد کشمیر مدعو کیا تھا اور یہ وہاں گئے تھے۔
میر پور، کوٹلی اورگلگت پونچھ کا سارا صوبہ سردار ابراہیم کے قبضے میں تھا۔ گلگت ایجنسی میں کامیاب بغاوت ہو چکی تھی۔ پٹیالہ سے منگوائے دستوں کے باوجود مہاراجہ صاحب کی عملداری جموں اور لداخ تک سمٹ چکی تھی۔ مہاراجہ کو خوف کے عالم میں سری نگر چھوڑنا پڑا اور بھاگ کر جموں چلا گیا۔ وی پی مینن اپنی کتاب " دی سٹوری آف دی انٹگریشن آف دی انڈین سٹیٹس، میں لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کے اعصاب چٹخ گئے تھے اور میں نے اسے مشورہ دیا کہ اپنے خاندان اور قیمتی اشیاء کو لے کر یہاں سے فوری طور پر نکل جائو۔ مہاراجہ اپنی ساری کاریں بھی ساتھ لے گیا اور پیچھے صرف ایک جیپ رہ گئی۔ وی پی مینن کی گواہی ہے کہ خوفزدہ مہاراجہ جب بھاگ رہا تھا تو ریاستی فوج کا کہیں وجود نہ تھا۔ اس کے خلاف ایک کامیاب بغاوت ہو چکی تھی۔ مہاراجہ سری نگر سے فرار ہو چکا تھا۔
اس نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی۔ اس کے الفاظ تھے: اگر میری ریاست کو بچانا ہے تو فوری طور پربھارت سے سری نگر فوجی امداد بھیجی جائے۔ بھارت نے جواب میں شرط عائد کر دی کہ پہلے الحاق کرو پھر فوجی مدد بھیجیں گے۔ چنانچہ مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کر دیا۔ بعض لوگ اس صورت حال کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیخ عبد اللہ جیسے آدمی نے بھی دلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے 21 اکتوبر کو اس بات کا اعتراف کیا کہ ساری خرابی مہاراجہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوئی اور وہی اس کا ذمہ دار ہے۔
اس سارے پس منظر سے آگہی کے بعد اب آئیے اس سوال کی جانب کہ کیا مہاراجہ قانونی طور پر الحاق کرنے کی پوزیشن میں تھا؟ ایک حکومت کب تک ایک ریاست کی نمائندگی کرتے ہوئے ریاست کے نام پر کسی بیرونی قوت سے کوئی معاہدہ کر سکتی ہے اور کب اس کا یہ حق ساقط ہو جاتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے انٹر نیشنل لاء کے پروفیسر ڈاکٹر اوپن ہائیم انٹر نیشنل لاء کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ ہوگو گریشس کے ساتھ ساتھ بعض حلقوں میں انہیں بھی " فادر آف ماڈرن انٹر نیشنل لائ، کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔
پہلی شرط یہ ہے کہ حکومت کا اپنے علاقوں پر حقیقی کنٹرول ہو۔ سامنے کی بات ہے کہ مہاراجہ کی حکومت کا اپنے علاقوں پر کوئی کنٹرول نہ تھا۔ اسے سری نگر سے بھی فرار ہونا پڑا اور اس کی عملداری محض جموں اور لداخ تک محدود ہو کر رہ گئی اور وہاں بھی اسے خطرہ تھا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ عوام کی غالب اکثریت میں اس حکومت کے لیے habitual obedience موجود ہو، مہاراجہ کے لیے اب عوام میں اطاعت کے یہ جذبات بھی موجود نہیں تھے۔ نہ صرف بغاوت ہو چکی تھی بلکہ اس کی حکومت کے متوازی حکومت بنائی جا چکی تھی۔ آزاد کشمیر حکومت قائم ہو چکی تھی اور سردار ابراہیم اس کے صدر تھے۔ اوپن ہائیم کے مطابق تیسری شرط یہ ہے کہ اس حکومت کے اقتدار میں رہنے کے معقول حد تک امکانات موجود ہوں۔ مہاراجہ کی حکومت کے اقتدار میں رہنے کا کوئی امکان موجود نہ تھا۔ یہ وہ حقیقت تھی جس کا اعتراف خود مہاراجہ نے تحریری طور پر کیا کہ " اگر میری ریاست کو بچانا ہے تو فوری طور پربھارت سے سری نگر فوجی امداد بھیجی جائیــ"۔ یعنی اس نے غیر نمائندہ حیثیت سے بھارت سے معاملہ کیا۔
اب بڑھتے ہیں دوسرے سوال کی جانب کہ کیا الحاق کی اس نامعتبر دستاویز کے بعد کشمیریوں کا حق خود ارادیت ساقط ہو چکا ہے؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے۔ اس پر انشاء اللہ آئندہ نشست میں بات ہو گی۔