تحریک انصاف کے بیانیے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم انصاف کے علمبردار ہیں، کرپشن ہمیں گوارا نہیں، سارے کرپٹ ہمارے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن ہم نے اب کسی کو نہیں چھوڑنا۔ آئیے آج پاکیٔ داماں کی اس حکایت پر بات کر لیتے ہیں۔
احتساب کے لیے وطن عزیز میں ایک آئین اور خود مختار ادارہ نیب موجود ہے۔ اس کا ایک آئینی سربراہ ہے جس کے عہدے کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ حکومت اسے نہیں ہٹا سکتی۔ احتساب کرنا اب اس ادارے کا کام ہے۔ کس کے خلاف ریفرنس بنانا ہے، کسے گرفتار کرنا ہے، کس کے ساتھ پلی بارگین کرنا ہے، یہ سب نیب اور چیئر مین نیب کے اختیارات ہیں۔ اسی طرح کسی کو چھوڑنے یا سزا دینے کا اختیار بھی عدالت کو ہے وزیر اعظم کو نہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی پوری کابینہ مل کر بھی کسی کے ساتھ پلی بارگین نہیں کر سکتی۔ وزیر اعظم نے کسی کو کیا پکڑنا یا چھوڑنا، اب تو چیئر مین کہہ رہے ہیں ہم نے حکومت کو بھی نہیں چھوڑنا، سب کا احتساب کرنا ہے۔
وزیر اعظم البتہ انتظامی سطح پر کچھ اقدامات کر سکتے تھے اور وہ انہوں نے کیے۔ مثلا وزیر اعظم نے حکم دیا کہ چونکہ ملک میں خوفناک لوٹ مار ہوئی ہے اس لیے اب میری حکومت اس بات کی تحقیقات کرے کہ گذشتہ دس سال میں جو قرض لیا گیا اس میں کتنا غبن ہوا اور کتنا پیسہ نواز شریف اور آصف زرداری نے لوٹ کھایا۔ وزیر اعظم کی اپنی ٹیم نے تحقیقات کیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس قرض کی رقم کے استعمال کا سارا ریکارڈ دیکھ لیا گیا ہے کوئی لوٹ مار نہیں ہوئی۔
حکومت نے اس پہلو پر بھی تحقیقات کیں کہ گذشتہ ادوار میں پاکستان سے کتنی رقم لوٹ مار کر کے ناجائز طریقے سے باہر بھیجی گئی۔ ان کی اپنی تحقیقات کا نتیجہ شبر زیدی صاحب یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے باہر جتنی بھی رقم گئی تھی قانونی طریقے سے گئی تھی اور اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ پاکستان سے لوٹ مار کر کے لوگوں نے دو سو ارب ڈالر باہر کے بنکوں میں رکھے ہیں جو ہم نے واپس لانے ہیں۔ اب ان کی اپنی ٹیم کہہ رہی ہے کہ ایسا بھی کچھ نہیں۔ جب سے شبر زیدی صاحب کے انکشافات سامنے ہیں بیرسٹر شہزاد اکبر کے دعووں پر سوالات اٹھ کھڑے ہیں لیکن ان کے ہاں خاموشی ہے۔
وزیر اعظم کا اپنا رویہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ان کی پارٹی فنڈنگ کا کیس کب سے چل رہا ہے۔ فنڈز کی کھلی کتاب سامنے لا کر کیوں نہ رکھ دی کہ لیجیے تسلی کر لیجیے؟کرپشن سے اتنی ہی نفرت تھی تو پارٹی فنڈز کا حساب تو آپ کو خود الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ قوم کے سامنے بھی رکھ دینا چاہیے تھا۔
وزیر اعظم کی کابینہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اعظم سواتی صاحب کی کہانی تو دہرانے کی حاجت نہیں۔ آصف زرداری کو لوٹ مار کا استعارہ سمجھا جاتا ہے لیکن خزانے کے چابی اسی آصف زرداری کی کابینہ کے وزیر خزانہ کو سونپ دی۔ ادویات کے سیکنڈل سامنے آئے تو عامر کیانی کو وزارت سے ہٹایا مگر پارٹی کا اہم عہدہ دے دیا۔ زرداری دور میں وزارت اطلاعات کے فنڈز کے جانائز استعمال کا الزام لگایا اور پھر اپنی باری آئی تو زرداری ہی کی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو اپنا وزیر اطلاعات بنا لیا۔
زبیدہ جلال پر خود اعتراض کیے اور آج وہ ان کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کی فہمیدہ مرزا نے جب بطور سپیکر قومی اسمبلی اپنی مدت ختم ہونے سے صرف تین دن پہلے خود ہی اپنی مراعات میں حیران کن اضافہ فرما دیاکہ ساری عمر ساری دنیا سے سرکاری خرچ پر مفت علاج ہو سکے گا، تاحیات بارہ لوگوں کا سٹاف سرکاری خرچ پر وہ رکھیں گی اور ساری عمر 1600 سی سی کی سرکاری گاڑی مع ڈرائیور ان کے پاس رہے گی تو خود عمران خان نے اسے کرپشن قرار دیا آج وہی فہمیدہ مرزا عمران کی حکومت میں وفاقی وزیر ہیں۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ" میں نے چھوڑنا کسی کو نہیں " کی تکرار جذباتی نوجوان کے فکری استحصال کی ایک شعوری کوشش ہے، تا کہ حکومت کی کار کردگی پر سوالات اٹھنے لگیں تو یہ نعرہ مستانہ لگا کر بات بدل دی جائے کہ ہم تو دودھ کے دھلے اللہ کے ولیوں کا ایک گروہ ہیں، ہم نے کرپشن کے خلاف بائیس سال جدوجہد کی ہے اور اب ہم نے کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑنا۔ یہی وجہ ہے کہ سارے کرپٹ ہمارے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس بیانیے کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ جو حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گا وہ یا تو خودکرپٹ قرار پائے گا یا کرپٹ عناصر کا کارندہ سمجھا جائے گا۔
اس دوران اگر حکومت کی کمزوریوں کے بوجھ تلے دب کر حکومت ختم ہو جائے تو اس ووٹر سے کہا جائے کہ یہ سب ہماری نا اہلی اور غفلت کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے کرپشن ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ بس اسی کی ہمیں سزا ملی۔
وزیر اعظم نے خود کہا میں نے جذبہ انسانیت کے تحت نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ وزیر اطلاعات فرما رہی ہیں کابینہ میں 80 فیصد لوگ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دینے کے حق میں تھے۔ اجازت تو حکومت نے دے دی۔
اختلاف بانڈ کا تھا۔ اسے عدالت نے ختم کر دیا۔ عمران خان کو اختلاف تھا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر دیتے۔ اپیل نہیں کی لیکن بھرے جلسے میں عدالتوں پر تبقید کر کے یہ تاثر قائم کیا کہ جیسے اللہ کے ولیوں کی حکومت کا تو اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔
اس نے تو کسی کو نہیں چھوڑنا۔ "غلط بیانئے" کی طبعی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگلے ہی روز جناب چیف جسٹس نے آئینہ سامنے رکھ دیاکہ جناب اجازت آپ نے خود دی تھی۔ کرشن بہاری نور نے کہا تھا : آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں۔