یہ فقرہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی حیثیت محض ایک سفارتی اور اخلاقی معاون کی ہے یا وہ اس مسئلے میں ایک فریق ہے؟ آئیے انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
سلامتی کونسل نے 20 جنوری 1948 ء کو ایک قرارداد پاس کی۔ اس قرارداد ( نمبر 39) میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کا ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کا آفیشنل نام تھا " یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان"۔ اس کمیشن کے بنیادی فرائض میں مسئلہ کشمیر کو دیکھنا تھا۔ اب جو کمیشن مسئلہ کشمیر پر تحقیقات وغیرہ کے لیے قائم کیا گیا اگر اس کا نام کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان رکھا گیا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سادہ اور آسان زبان میں یہی مطلب ہے کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی حیثیت ایک فریق کی ہے۔
دو ہی دن بعد یعنی 22 جنوری 1948 ء کو سلامتی کونسل نے جموں کشمیر کے معاملے کو زیر بحث لاتے ہوئے اس کا جو عنوان رکھا وہ قابل غور ہے۔ سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو India Pakistan Question کا عنوان دینے کا فیصلہ کر لیا۔ یعنی دنیا کے سب سے بڑے فورم نے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی حیثیت ایک فریق کی ہے۔
چنانچہ سلامتی کونسل میں جب 3 جون 1948 ء کو قرارداد پیش کی گئی تو اس قرارداد ( نمبر 51 ) میں مسئلہ کشمیر نہیں لکھا تھا۔ قرارداد کے پارٹ 1 میں جہاں مسئلہ کشمیر پر غور کیا گیا اسے India Pakistan Question لکھا گیا۔ اسی قرارداد میں کچھ اور مسائل پر بھی بات کی گئی جیسے فلسطین کا مسئلہ تھا، انڈونیشیا کا مسئلہ تھا، چیک سلواک کا مسئلہ تھا۔ لیکن ہر مسئلے کا ذکر صرف اس مسئلے کے نام سے کیا گیا۔ یہ صرف مسئلہ کشمیر تھا جسے کشمیر کوئسچن قرار دینے کی بجائے India Pakistan Question قرار دیا گیا۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی حیثیت ایک فریق کی ہے۔
سلامتی کونسل نے اپنی 21 اپریل 1948 ء کی قرارداد ( نمبر 47) میں " یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان" کے دائرہ کار کو مزید بڑھا دیا۔ اس کمیشن نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جتنی بھی تجاویز پیش کیں ان تمام تجاویز میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے ایک بنیادی فریق کے طور پر مخاطب کیا گیا۔ کوئی ایک تجویز بھی ایسی نہیں جہاں یہ محسوس ہو کہ پاکستان تو یہاں محض ایک وکیل یا ہمدرد یا سفیر کے طور پر موجود ہے اور مسئلہ کے بنیادی فریق اور ہیں۔ ہر تجویز پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق سمجھ کر پیش کی گئی۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے جو اصطلاحات استعمال کی گئیں وہ بھی قابل غور ہیں۔ the dispute between India and Pakistan ( یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ) اور the situation between India and pakistan ( یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان صورت حال)۔ چنانچہ جب اقوام متحدہ میں بھارت نے یہ اعتراض اٹھایا کہ پاکستان تو مسئلہ کشمیر میں ایک فریق ہے ہی نہیں اور اس کے فریق تو بھارت اور کشمیری عوام ہیں تو سر ظفر اللہ خان نے جارحانہ اور خوبصورت ادبی پیرائے میں جواب دیتے ہوئے بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادیں پڑھنے کا مشورہ دیتے ہوئے طنز کیا کہ " اب کہا جا رہا ہے پاکستان تو اس مسئلے میں فریق ہی نہیں ہے۔ مجھے لگ رہا ہے گویا بھارت نے اب تک ہمیں صرف خیرات کے طور کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے کی اجازت دیے رکھی ہے"۔
تنازعہ کشمیر میں فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیری عوام کو ہے لیکن پاکستان کی حیثیت محض ایک وکیل، سفیر یا ہمدرد اور خیر خواہ کی نہیں ایک فریق کی ہے۔ پاکستان اگر اس معاملے میں ایک فریق نہیں تھا تو مہاراجہ کے الحاق کے صرف تین بعد نہرو نے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ٹیلیگرام بھیج کر یہ وعدہ کیوں کیا کہ بھارت بہت جلد کشمیر سے فوجیں نکال لے گا اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے؟اس ٹیلیگرام میں وزیر اعظم پاکستان کو مخاطب کر کے نہرو نے A pledge to your government کے الفاظ کیے تھے۔ اگر پاکستان معاملے میں فریق نہیں تھا تو اس سے وعدہ اور عہدکرنے کی کیا ضرورت تھی؟
یہ بھارت کی دیرینہ خواہش رہی ہے کہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کو " نان پارٹی" قرار دیا جائے۔ اور یہ تاثر دیا جائے کہ یہ مسئلہ تو کشمیر اور بھارت کے درمیان ہے اور پاکستان اس معاملے میں فریق نہیں ہے۔ اب سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے بعد یہ تو اس کے لیے ممکن نہیں رہا اس لیے اس نے شملہ معاہدہ کی غلط تعبیر کرنا شروع کر دی کہ مسئلہ کشمیربین الاقوامی نہیں بلکہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ اسی دوران اس نے شیخ عبد اللہ سے " کشمیر اکارڈ، بھی کروا لیا جو ایک الگ واردات ہے اور جسے سلامتی کونسل بڑے واضح انداز میں غیر قانونی اقدام قرار دے چکی ہے۔ شملہ معاہدے میں پہلی شق ہی یہی ہے کہ اقوام متحدہ کا چارٹر اور اصول پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی صورت گری کریں گے۔ اس کے بعد مسئلہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ ہی رہے گا، دو طرفہ نہیں۔ یہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پرآج بھی موجود ہے۔ یہ اصول 1996 ء میں سلامتی کونسل میں طے ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر اس وقت تک سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکتا جب تک پاکستان اور بھارت دونوں اس پر رضامند نہ ہوں اور ہاں، یاد رہے یہ اصول شملہ معاہدے کے بعد طے ہوا تھا۔
مسئلہ کشمیر کے باب میں زمینی حقیقتوں کی روشنی میں جو بھی پالیسی اختیار کی جاتی ہے وہ ایک الگ بحث ہے لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر میں محض ایک وکیل، ہمدرد یا سفیر نہیں ہے۔ وہ اس مسئلے میں ایک فریق ہے۔ اقوام متحدہ میں یہی ہمارا موقف رہا ہے اور سلامتی کونسل کی قراردیں بھی اس کی تائید کر رہی ہیں۔