اٹھتی جوانیوں کے دن تھے جب نعرہ گونج رہا تھا: ظالمو! قاضی آ رہا ہے۔ طنطنے اور دبدبے والی وہ جماعت اسلامی تو " صاحب فراش" ہو کر بستر سے جا لگی ہے اور اب اس کے " غریب محترم" برائے وزنِ بیت جب بے وزن رجز پڑھتے ہیں تو کوئی بد مزہ بھی نہیں ہوتا۔ اب مولانا فضل الرحمن سراپا حتجاج ہیں اور سماج کی سماعتوں میں آج ایک نیا نعرہ رس گھول رہا ہے : مولانا آ رہا ہے۔ میرے جیسے ایک عام شہری کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ اقتدار کے حصول یا اقتدار کی تبدیلی کے لیے درست راستہ کون سا ہے:ووٹ کا یا احتجاج کا؟
ہمارے ملک میں دو رجحانات نمایاں ہیں۔ عام سیاسی جماعتوں کے بر عکس مذہبی قوتوں کے پاس طویل دورانیے کے لیے غیر معمولی اجتماعات منعقدکرنے کی غیر معمولی قوت موجود ہے۔ اس کے مختلف عوامل ہو سکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا کارکن زیادہ یکسو اور متحرک ہے۔ وہ قیادت کے حکم پر ہفتوں بھی سڑک پر بیٹھ سکتا ہے۔ یہ زیادہ منظم بھی ہیں۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ لوگوں نے انہیں اتنے ووٹ کبھی بھی نہیں دیے کہ یہ ملک کی زمام اقتدار سنبھال سکیں۔ دوسری جانب دیگر سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کے پاس غیر معمولی اجتماعات کی بھلے اتنی صلاحیت نہ ہو لیکن ووٹ بنک ان کے پاس ہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فیصلہ ساز عنصر کیا ہے: ووٹ یا احتجاج؟
یہ سوال غیر اہم ہے کہ مولانا کے ساتھ کتنے لوگ ہیں۔ ( اگر چہ عملی طور پر یہ بات غیر اہم نہیں ہو گی) فرض کریں یہ ایک لاکھ ہوں، اور چاہے تو یہ فرض کر لیجیے کہ یہ ایک ملین ہیں۔ سوال یہ ہے کیا اقتدار کے حصول یا کسی کو اقتدار سے ہٹانے کا معتبر طریقہ وہ ہے جو آئین پاکستان میں لکھا ہے یا ان دونوں امور کا فیصلہ اب اس بات سے ہو گا کہ کون ایک بڑا جتھا، ایک بڑا مجمع لے کر آتا ہے اور اسلام آباد کا نظام زندگی مفلوج کر دیتا ہے۔ یہ ایک جدید جمہوری ریاست ہے یا قدیم زمانوں کا ایک قبائلی نظام کہ جس کے جھنڈے تلے جنگجوئوں کی افرادی قوت زیادہ ہو گی اقتدار پر اسی کا حق تسلیم کر لیا جائے گا؟کہا جاتا ہے یہ سب ہم ووٹ ہی کی خاطر تو کر رہے ہیں، چلیں فرض کریں دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں اور مولانا ہی کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیا جاتا ہے، کیا مولانا دو تہائی اکثریت لے لیں گے؟ دھاندلی ہوئی ہے تو اس کی متاثرہ جماعت تو ن لیگ ہے۔ اس احتجاج میں وہ کہاں ہے؟
حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں ہی اس وقت غلطی ہائے مضامین کی عملی شکل بن چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن کا اگر بیانیہ یہ ہے کہ "ووٹ کو عزت دو" تو احتجاج کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے والوں کی راہ میں پلکیں کیوں بچھائی جا رہی ہیں؟ اسی طرح عمران خان اگر کل خود ڈی چوک پر اسی طرح سے ہی ایک وزیر اعظم سے استعفی لینے کے لیے پڑائو ڈال سکتے ہیں تو آج کمال سادگی سے اس اقدام کو ملک دشمنی کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ کتنے بھولپن سے انہوں نے کہا: آپ ہی بتائیے دنیا میں کبھی ایسا سنا آپ نے کہ آزادی مارچ آرہا ہے اور وزیر اعظم سے استعفی مانگ رہا ہے۔ کوئی تو ہوتا جو اٹھ کر کہتا : عالی جاہ سنا ہی نہیں، ہم نے تو دیکھ بھی رکھا ہے، ابھی کل ہی کی تو بات ہے۔ ان کے چاہنے والے آج تک جان نہیں پائے وہ سادہ بہت ہیں یا ہشیار بہت۔
حکومت اور اپوزیشن میں سے اخلاقی اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں۔ ہر دو کا معاملہ یہ رہا کہ اخلاقیات اور اصولوں کے بھاشن دیتے رہو لیکن مفادات کے حصول کے لیے جب جہاں جس وقت جو دائو چلتا نظر آئے اسے اختیار کر لو۔ کل عمران احتجاج کر رہے تھے اور میاں اور مولانا صاحبان انہیں با جماعت مشورے دیا کرتے تھے کہ معاملات سڑکوں پر حل نہیں ہوتے آپ عدالت جا کر اپنا مقدمہ ثابت کیجیے۔ آج عمران حکومت میں ہیں اور ان کے حضرات ناصح عدالت میں جا کر دھاندلی ثابت کرنے کی بجائے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ آج عمران خان حکومت میں ہیں تو وہ بھی اقوال زریں سنا رہے ہیں کہ سڑکوں پر آ کر بھلا کبھی کسی نے وزیر اعظم سے استعفی مانگا۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ ان کا استعفی مانگنے کا انداز بھی ایسا ہی تھا۔ آج عمران خان اپوزیشن کو سڑک سے اتر کر قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں حالانکہ انہوں نے عدالت میں دھاندلی کا کیس ہار نے کے باوجود اور پینتیس پنکچروں کی بات کو سیاسی بیان قرار دینے کے باوجود ہنگامہ کھڑا کیے رکھا تھا۔
کل عمران کا احتجاج حکومت کے نزدیک ملک دشمنی پر مبنی اقدام تھا آج مولانا کا مارچ عمران کے نزدیک حب الوطنی کے معیار سے فروتر حرکت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے ایک پتلی تماشا چل رہا ہے اور کرداروں کے ڈائیلاگ بھی لکھ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا حالات نے کسے کون سا کردار سونپ دیا۔ جو بھی حکومت میں جاتا ہے وہ حکمران کے لیے لکھے گئے اقوال زریں اور میٹھے میٹھے ارشادات سنانے لگ جاتا ہے اور جو اپوزیشن میں آتا ہے وہ آتش فشاں بن کر اپنے ڈائیلاگ پڑھنے لگ جاتا ہے۔ پتلی تماشے میں کوئی بھی یہ سوچ کر بد مزہ نہیں ہوتا کہ کل تو اس کا موقف کچھ اور تھا آج موقف تبدیل کیسے ہو گیا۔ مولانا کے ساتھ کافی بڑی تعداد میں لوگ ہیں۔ اسلام آباد اتنے لوگ نہیں سنبھال سکتا۔ دوسرے ہی دن یہاں تعفن اٹھ کھڑا ہو گا۔ صرف مولانا کے لوگ ہوئے تو معاملہ اور ہو گا کیونکہ اس سارے معاملے پر عالمی برادری کی نظر بھی ہو گی۔ لیکن اگر دیگر جماعتوں نے بھی بھلے علامتی طور پر ہی سہی، اس میں شرکت کر دی تو پھر یہ اجتماع کسی ایک مذہبی جماعت کا نہیں بلکہ اپوزیشن کا نمائندہ اجتماع بن جائے گا۔ ایسے میں اگر ایک لاکھ تک شرکاء ہو گئے تو اس مجمع کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ پھر راستے تلاش کرنا پڑیں گے۔
اس صورت میں یہ سوال البتہ زیادہ معنویت اختیار کر جائے گا کہ اصل قوت اب کس کی ہے: ووٹ کی یا احتجاج کی؟