مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے بارے میں بہت سوچا لیکن ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا۔ سوچا مولانا ہی کی خدمت میں چند سوالات رکھے جائیں، وہ بلاشبہ پاکستانی سیاست کے جہاندیدہ اور قابل احترام بزرگ ہیں، رہنمائی فرما دیں تو شاید یہ الجھن دور ہو جائے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اس احتجاج کا مقصد کیا ہے؟ احتجاج بلاشبہ مولانا کا حق ہے لیکن کیا وہ محض یہ ثابت کرنے تشریف لا رہے ہیں کہ یہ میرا حق ہے یا ان کے ہمراہ کوئی پالیسی بھی ہے جو انہیں کسی منزل مقصود تک پہنچائے گی؟ فرض کریں ان کامارچ کامیاب ہوتا ہے تو کیا اس کے نتیجے میں سیاست میں کوئی جوہری تبدیلی آ جائے گی یا ملک میں اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہو جائے گا؟ اور اگر ایسا نہیں تو کیا وہ اپنے کارکنان کو ایک ایسے تصادم کی طرف دھکیل رہے ہیں جس میں کامیابی مل بھی جائے تو اس فتح کا مال غنیمت نواز شریف یا آصف زرداری کی جماعتوں کے حصے میں آئے گا؟ ظاہر سی بات ہے عمران خان کی حکومت اگر اس مارچ کے نتیجے میں چلی جاتی ہے تو اس کے بعد کے سیاسی انتظام میں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی جیسی ملک گیر جماعتوں ہی میں سے کوئی جماعت آگے آئے گی۔ سوال یہ ہے کہ جے یو آئی کا ہدف کیا ہے اور اس کی منزل مقصود کیا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس مارچ میں مولانا کا بیانیہ کیا ہے؟ وہ شدید کنفیوز نظر آ رہے ہیں۔ وہ قومی منظر نامے میں بات کر رہے ہوتے ہیں تو وہ سیاست کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔ اپنے حلقہ اثر میں یہ بیانیہ مذہبی ہو جاتا ہے۔ بظاہر یہ سیاسی جدو جہد ہے اور اس کا نام ہے آزادی مارچ لیکن پارٹی فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے جو پرچیاں بانٹی گئی ہیں ان پر تحفظ ختم نبوت لکھا ہے۔ کبھی وہ اپنے مارچ کو کشمیر کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ قومی امنگوں کے ترجمان بھی ہیں۔ یہ کنفیوژن بھلے دانستہ پھیلائی جا رہی ہو گی لیکن اس سے یہ سوال ضرور پیدا ہو رہا ہے کہ آپ کا حقیقی بیانیہ کیا ہے؟ یہ سیاسی مارچ ہے یا آپ کے خیال میں یہ تحفظ ختم نبوت کے لیے کیا جانے والا مارچ ہے؟ اگر معاملہ سیاسی ہے تو داخلی سطح پر بیانیہ سیاسی کیوں نہیں اور اگر یہ مارچ واقعی تحفظ ختم نبوت کے لیے ہو رہا ہے تو قومی سطح پر آپ کے مطالبات میں ایسی کوئی بات کیوں نہیں شامل کی گئی؟ جس نام پر آپ جماعت کے کارکنان سے چندا اکٹھا کر رہے ہیں وہ مطالبہ آپ قومی سطح پر اٹھا ہی نہیں رہے تو یہ معاملہ کیا ہے؟
تیسرے سوال کا تعلق جے یو آئی کے فکری بیانیے سے ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ جے یو آئی اصل میں جمعیت علمائے ہند کی وارث ہے۔ جمعیت علمائے ہند ہمارے سامنے ہے کہ سیکولر طرز سیاست کی علمبردار ہے۔ اگر حسین احمد مدنی صاحب کی بات درست تھی کہ قومیں مذہب سے نہیں اوطان سے بنتی ہیں تو قومی سیاست مذہب کے نام پر کیسے کی جا رہی ہے؟ یہی تو جمعیت علمائے ہند کی مسلم لیگ پر تنقید کا بنیادی نکتہ تھا۔ سوال یہ ہے کیا آپ نے جمعیت علمائے ہند کی فکر سے رجوع کر لیا ہے؟ ایک چھوٹا سا اعتراف ہی کر لیں۔
چوتھے سوال کا تعلق مذہبی مدارس سے ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بر ملا فرما رہے ہیں کہ دینی مدارس کے طلباء اگر ووٹ ڈال سکتے ہیں تو وہ احتجاج میں بھی شریک ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ مذہبی مدارس کی نمائندگی اس ملک میں کون کر رہا ہے۔ مولانا یا وفاق المدارس؟کیا وفاق المدارس کا موقف بھی ہے جو مولانا کا ہے؟ کیا مولانا تقی عثمانی کی رائے بھی یہی ہے؟ آج تک تحفظ مدارس کے نام پر جلسہ ہائے عام منعقد کرنے والی جے یو آئی سے سوال تو پوچھا جائے گا کہ یہ کیسا تحفظ کا جذبہ ہے کہ جن علمائے کرام نے آپ کے ایک سیاسی فیصلے سے اختلاف کیا ان کی کردار کشی شروع کر دی گئی؟یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا یہ دینی مدارس کے ساتھ خیر خواہی ہے کہ وہاں کے بچوں کو ایک سیاسی معرکے کا ایندھن بنا دیا جائے؟ جدید تعلیمی اداروں کے بچے بھلے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوں لیکن کیا عمران خان نے میانوالی کے نمل کالج کے بچوں کو اسی طرح اپنے دھرنے کا حصہ بنایا تھا؟ کیا وہ ایسا سوچ بھی سکتے تھے؟ بیکن ہائوس کے مالکان بھی تحریک انصاف کا حصہ تھے کیا وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ بیکن ہائوس کے بچے عمران کے دھرنے میں جائیں گے؟ کیا یہ صرف مدارس کے بچے ہیں جنہیں محض اس لیے اب آپ کی سیاست کا ایندھن بھی بننا ہے کہ اتفاق زمانہ نے انہیں مدارس کا طالب علم بنا دیا؟
مولانا سے پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا آج کے بعد سیاست عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کی جائے گی اور انتقال اقتدار اب کسی آئینی اور جمہوری انداز سے نہیں ہو گا بلکہ انتقال اقتدار سڑکوں پر آ کر ہو گا؟ یہ رسم چونکہ عمران نے شروع کی تھی تو کیا اب جے یو آئی کے ہاں سیاست کے باب میں اسی کو حجت مان لیا گیا ہے؟
چھٹا اور آخری سوال یہ ہے مولانا، امام ہیں یا عمران خان کے مقلد اور اگر وہ مارچ کرنے آ رہے ہیں تو ان کے پاس اس کے ٹھوس عقلی دلائل ہونے چاہییں یا رد عمل اور غصے میں ان کے وابستگان کا یہ کہنا کافی ہے کہ چونکہ عمران خان نے بھی ایسا کیا تھا اس لیے ہم بھی یہی کریں گے۔ عمران خان نے تو اور بھی بہت کچھ کیا تھا، کیا اب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہر وہ کام کرنا ہے جو عمران خان نے کیا تھا۔ معیار اگر عمران خان ہی ہیں تو ڈی چوک پر ان کے وابستگان کا تو " نچنے نوں دل کردا " تھا، کیا آپ کے وابستگان بھی اب محض ضد میں یہ کر گزریں گے کہ عمران کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں، ہمارا بھی تو جمہوری حق ہے، ہم بھی تو اسی ملک کے شہری ہیں، ہم کیوں نہیں ناچ سکتے؟