اٹھائیس نومبر کو مشرف کیس کا فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے، کیا پر ویزمشرف کو اس مقدمے میں سزا ہو جائے گی؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس مقدمے کے بنیادی حقائق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارے ہاں اس مقدمے پر جتنی بھی بحث ہوئی، آرٹیکل 6 کے تناظر میں ہوئی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اس مقدمے کو اس وقت تک سمجھا ہی نہیں جا سکتا جب تک آئین پاکستان کے آرٹیکل 12 کو نہ سمجھ لیا جائے۔
اس مقدمے میں جتنی اہمیت آرٹیکل 6 کی ہے، اتنی ہی اہمیت آرٹیکل 12 کی ذیلی دفعہ 2 کی ہے۔ اس میں تین اصول طے کر دیے گئے اور کسی بھی آئین شکن کے خلاف آرٹیکل 6 کا اطلاق انہی اصولوں کی روشنی میں ہو گا۔
پہلا اصول یہ ہے کہ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کا مقدمہ 23 مارچ 1956 ء سے چلایا جائے گا۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اگر غیر آئینی اقدام کی پارلیمان نے توثیق بھی کر دی ہو تب بھی آئین شکنی کا جرم ختم تصور نہیں ہو گا اور پارلیمان کی توثیق کی باوجود وہ جرم رہے گا اور اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
تیسرا اصول ان دونوں سے زیادہ دلچسپ ہے۔ قانون کی دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ جب ایک قانون بنتا ہے تو اس کا اطلاق اس دن سے ہوتا ہے۔ یعنی ایک قانون اگر آج چوبیس نومبر کو بنا ہے تو اس کا نفاذ بھی آج ہی کے دن سے ہو گا۔ لیکن آرٹیکل 12 میں ایک استثناء بیان کی گئی ہے اور کہا گیا ہے آرٹیکل 6 میں جب بھی اور جو بھی ترمیم ہو گی اس کا اطلاق 23 مارچ 1956 سے ہو گا۔ یعنی آپ آرٹیکل 6 میں بے شک 2019 میں کوئی ترمیم کر دیں، وہ 23 مارچ 1956 سے نافذ العمل تصور ہو گی۔
ان اصولوں کی روشنی میں اب آئیے پرویز مشرف کیس کا جائزہ لیتے ہیں۔
پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ 12 اکتوبر کو کیا تھا لیکن نواز شریف نے ان کے خلاف جو مقدمہ قائم کیا وہ 12 اکتوبر کی بجائے تین نومبر کی ایمر جنسی پر قائم کیا۔ سوال یہ ہے کہ نواز حکومت نے 12 اکتوبر کے اقدام کی بنیاد پر یہ مقدمہ کیوں نہیں کیا؟
مسلم لیگ ن اس سوال کا ایک جواب یہ دے سکتی ہے کہ چونکہ پرویز مشرف کے 12 اکتوبر کے اقدام کی پارلیمان نے توثیق کر دی تھی اس لیے اس کارروائی پر مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ آئین پاکستان اس عذر کو قبول نہیں کرتا۔ پارلیمان کسی بھی غیر آئینی اقدام کی توثیق اسی آرٹیکل کے تحت کرتی ہے۔ یہ آرٹیکل بتا رہا ہے کہ یہ توثیق عارضی ہو گی تا کہ نظام ریاست چلتا رہے۔ اس توثیق سے جرم ختم نہیں ہو گا۔
اس بات کو ایک اور انداز سے بھی سمجھ لیجیے۔ آصف زرداری کے دور میں آرٹیکل 6 میں ایک ترمیم کی گئی اور قرار دیا گیا کہ آئین شکنی کے کسی اقدام کی نہ سپریم کورٹ توثیق کرے گی نہ ہائی کورٹ۔ آرٹیکل کے الفاظ ہیں :
An act of high treason mentioned in clause (1) or clause (2) shall not be validated by any court including the Supreme Court and a High Court.
اب بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اس کا تعلق مستقبل سے ہے۔ یہی سمجھا جاتا ہے کہ چونکہ Shall not be validated کے الفاظ استعمال کیے گئے اس لیے اگر آئندہ کسی عدالت نے آئین شکنی کی توثیق کی تو اس صورت حال میں آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم اوپر پڑھ چکے ہیں کہ آرٹیکل 12میں واضح طور پر لکھا ہوا کہ آرٹیکل 6کے اندر جب بھی اور جو بھی ترمیم ہو گی اس ترمیم کا اطلاق 23 مارچ 1956 ء سے ہو گا۔ چنانچہ اب قانونی پوزیشن یہ ہے کہ اس ترمیم کا اطلاق مستقبل کی کسی امکانی توثیق پر نہیں ہو گا بلکہ ماضی پر بھی ہو گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زرداری نواز فارمولے کے تحت کی گئی اس ترمیم میں عدالت پر تو آرٹیکل 6 کا اطلاق کر دیا گیا لیکن پارلیمان نے جو " توثیقیں" فرمائی تھیں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں یہ ترمیم این آر او کے احسان کے بدلے میں تو نہیں کی گئی تھی کہ آرٹیکل چھ کے اطلاق کو اتنا پیچیدہ بنا دو کہ خود عدالتیں اس کی گرفت میں آ جائیں۔
ایک اور معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف تین نومبر کی جس ایمر جنسی کی بنیاد پر مقدمہ قائم کیا گیا کیا ہمیں معلوم ہے وہ ایمر جنسی انہوں نے بطور صدر پاکستان لگائی تھی یا بطور آرمی چیف؟ اگر چہ اس وقت ان کے پاس دونوں عہدے موجود تھے لیکن سپریم کمانڈر اور ریاست کے سربراہ یعنی صدر پاکستان کی بجائے انہوں نے یہ ایمر جنسی بطور آرمی چیف لگائی تھی۔ کبھی ہم نے غور کیا اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی جو وجہ میں سمجھا ہوں یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں انہیں بطور آرمی چیف آئین میں ترمیم کا اختیار دیا تھا۔ اسی لیے بادی النظر میں انہوں نے یہی اختیار استعمال کیا۔ یہ اختیار چونکہ صدر کو نہیں تھا اس لیے ایمر جنسی بھی بطور صدر پاکستان نہیں لگائی گئی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں اقتدار پر رہنے کا حق تو تین سال کے لیے دیا تھا لیکن آئین میں ترمیم کے حق کی جہاں اجازت دی گئی تھی وہاں مدت کا تعین نہیں تھا۔ یہاں ذرا رک کر آرٹیکل 6 میں ہونے والی ترمیم کو ایک مرتبہ پڑھ لیجیے۔ اس ترمیم کے بعد معاملے کی جو قانونی پوزیشن بنتی ہے وہ اس کو ذرا سمجھنے کی کوشش کیجیے۔
وقت بتائے گا کہ عدالت چند دنوں بعد اس مقدمے میں کیا فیصلہ دیتی ہے لیکن اس مقدمے کے جو حقائق ہیں وہ کافی پیچیدہ ہیں۔ اب اس بات کا جواب نواز شریف صاحب ہی دے سکتے ہیں کہ 12 اکتوبر کی بجائے تین نومبر کے نسبتا کم تر اقدام کو مقدمے کی بنیاد بنانے کی وجہ کیا تھی؟