حیرت ہوئی یہ رائے ونڈ کے میاں محمد نواز شریف صاحب کا ذکر ہو رہا ہے یا اسد الصحرا، عمر مختار کی عزیمت کا بیان ہے۔ جناب سردار خان نیازی نے سادہ سا ایک سوال پوچھا تھا، جناب راجہ ظفر الحق نے جواب میں پہلے غزل قصیدہ کی، پھر رجز کہہ ڈالے۔ سوال تھا: کیا کوئی ڈیل ہو رہی ہے؟جواب آیا: جس نواز شریف کو میں جانتا ہوں اور جتنا میں جانتا ہوں ممکن ہی نہیں وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے اور ڈیل کر لے۔ راجہ ظفر الحق چاہتے تو اس سوال کے جواب میں مسکرا دیتے کہ دیکھیے صاحب نہ، پچھلی دفعہ ڈیل کرتے وقت مجھ سے کسی نے پوچھا تھا نہ اس مرتبہ ضروری ہے کہ کوئی مجھے اعتماد میں لے۔ لیکن راجہ صاحب ایک وضع دار آدمی ہیں۔ انہوں نے پاسِ وضع میں میاں صاحب کی عزیمت کا رجز پڑھ دیا ورنہ یہ بات اب کس سے چھپی ہے کہ مسلم لیگ ن کا چیئر مین بھی اتنا ہی با اختیار ہے جتنا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی۔ اتفاق دیکھیے عثمان بزدار اگر عمران خان کے وسیم اکرم ہیں تو قبلہ راجہ صاحب بھی ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین ہوا کرتے تھے، آج کل چیئر مین مسلم لیگ ن ہیں لیکن ہیں بارہویں کھلاڑی ہی۔ راجہ صاحب نواز شریف کی محبت کے گرفتارِ تازہ نہیں کہ نئی نئی وارفتگیوں میں مبالغہ کر رہے ہوں، وہ ایک بزرگ سیاستدان ہیں جو نواز شریف صاحب کے بیانیے، نظریے اور عزیمت کی ساری حقیقتوں سے خوب آگاہ ہیں۔ سب کچھ جان کر بھی لوگ بیعانیے کو بیانیہ کہیں اور اس میں سے عزیمت برآمد کر لیں تو میر یاد آتے ہیں:اس کا منہ دیکھ رہا ہوں، سو وہی دیکھوں ہوںنقش کا سا ہے سماں، میری بھی حیرانی کاارشاد ہوا : جتنا میں جانتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کتنا جانتے ہیں؟شاید سب سے زیادہ۔ عشاق سے چہرا چھپانا ویسے بھی ایک تکلف ہے اور میاں نواز شریف کی سیاست راجہ ظفر الحق کے سامنے یوں رکھی ہے جیسے کسی مردِ دانا کے سامنے اس کی اپنی ہتھیلی، وہ ساری لکیروں سے آگاہ ہوتا ہے۔ ایک میاں صاحب کو ہم بھی جانتے ہیں۔ عشروں کی سیاست سے اگر ڈیل نکال دی جائے تو باقی بچتا ہی کیا ہے۔ میاں صاحب کی سیاست کے گوشوارے میں ابن الوقتی اور ضمیر کے نیلام گھر کی میزبانی کے علاوہ ہے کیا بزرگ سیاست دان جس پر فدا ہیں؟میاں صاحب دولت کے بل پر سیاست میں آئے اور دولت ہی کے بل پر سارے قلعے فتح کرتے چلے گئے۔ ہارس ٹریڈنگ ہی کے وہ بانی نہیں، یہ روایت بھی ان سے منسوب ہے کہ میں صرف اسی پر اعتماد کرتا ہوں جسے میں خرید چکا ہوں۔ جس کا ضمیر صاحب کی تجوری میں نہیں رکھا اس پر صاحب نے کبھی اعتبار نہیں کیا۔ مزاج شاہاں کی ناتراشیدگی کا یہ عالم ہے کہ بھری محفل میں ایک ایم پی اے نے کہا : میاں صاحب میں آپ کا کتے سے زیادہ وفادار ہوں اور میاں صاحب اس طرز بیاں پر شاد ہو گئے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی گواہی موجود ہے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کے ہنگام میاں صاحب نے کیا کچھ نہیں کیا۔
میاں صاحب ڈیل نہیں کریں گے تو میاں صاحب کیا کریں گے؟غلام محمد قاصر نے کہا تھا:
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
بازار سیاست میں بھائو تائو نہیں کریں گے تو میاں نواز شریف کیا دیوان غالب کی شرح لکھیں گے؟
ہر شعبے کو میاں صاحب نے کرپٹ کیا، ہر ادارے کو شریفائز کیا، شرافت کی صحافت اور شریف سول سروس کے عملی مظاہر تو ہمارے سامنے ہیں۔ کیا احتساب کا ادارہ اور کیا عدالت، ہر شعبے کو دیمک کی طرح میاں صاحب کے طرز سیاست نے چاٹا۔ ماضی کی تو یہ توجیح پیش کی جا سکتی ہے کہ میاں صاحب بعد میں بدل گئے اور سیاست دان کی بجائے ایک مدبر بن گئے۔ لیکن مدبر کے کمالات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ سعودیہ سے لوٹے تو ایک یا دو نہیں پورے ایک سو چالیس " لوٹوں، کو ٹکٹ دے اصولی وصولی سیاست کو کمال تک پہنچایا۔ پرویز مشرف کا وزیر قانون ان کا بھی و زیر قانون تھا، مشرف دور کے گورنر جنرل عبد القادر بلوچ نواز شریف دور کے وفاقی وزیر تھے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جمہوریت کے فضائل ایسے بتایا کرتے تھے جیسے جمہوریت آپ ہی کے باغیچے کا کوئی شگوفہ ہو۔
کیا ہم بھول گئے کہ مشرف دور میں کیا ہوا تھا۔ غوث علی شاہ ساتھ والی کوٹھڑی میں ہی پڑے رہ گئے ا ور میاں صاحب اپنے بیعانیے، معاف کیجیے گا بیانیے سمیت جہاز میں بیٹھ کر جدہ تشریف لے گئے۔ غوث علی شاہ نے بعد میں صرف اتنا گلہ کیا کہ میاں صاحب اتنے بڑے جہاز میں ہمارے لیے کیا ایک سیٹ بھی نہ تھی کہ ہمیں یہیں چھوڑ کر چل دیے اور بتایا تک نہیں چنانچہ اب طلال چودھری اور دانیال عزیز جمہوریت کی زلفیں سنوار رہے ہیں اور غوث علی شاہ کی کوئی خبر نہیں۔
نواز شریف اول و آخر ایک کاروباری آدمی ہیں جو حساب سودو زیاں کے ماہر ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ ڈیل نہیں کر رہے اور جیل میں ایک عمر مختار صحرا کا شیر بن کر دھاڑ رہا ہے، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ کاروباری آدمی بہتر شرائط پر ڈیل کے لیے منڈی کے اتار چڑھائو کو دیکھ رہا ہے۔ عمران خان نے ڈھنگ کے دو چار کام کر لیے ہوتے تو میاں صاحب کی سیاست انجام کو پہنچ چکی ہوتی۔ لیکن امر واقع ہے کہ تبدیلی کے نام پر ہنستے بستے معاشرے میں سونامی آ گیا ہے۔ بد زبانی اور بد کلامی کے علاوہ ہر شعبے میں مندی ہے اور میاں صاحب سوچ رہے ہیں کہ عمران خان کے طرز حکومت کا یہی حال رہا تو لوگوں نے ایک دو ماہ میں ہی کفن چور کے باپ کی بلندی درجات کی دعائیں شروع کر دینا ہیں۔ فضل الرحمن بھی تحریک شروع کرنے والے ہیںاور نواز شریف امید سے ہیں کہ حالات بدلیں گے۔ وہ اسی کے منتظر ہیں۔ وہ عمر مختار ہیں نہ سلطان فتح علی خان ٹیپو" وہ نواز شریف ہیں۔ وہ سازگار موسموں میں بہتر ڈیل کی کوشش کریں گے اور اس کے بعد جاوید ہاشمی کو فون کر کے پوچھیں گے : یار مچھلی تالاب والی اچھی ہوتی ہے یا دریا والی؟