مودی نے نیا ہندوستان بنا دیا ہے۔ یوں سمجھیے پورے بھارت کو آتش فشاں پر لا کھڑا کیا ہے۔ عالم اسباب کی نفی نہیں کی جا سکتی لیکن انسانی مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ بھی خدا کی سنت ہے جو سماج انتہا پسندی سے مغلوب ہو جائے اس کا ہر قدم زوال کے راستے پر ہوتا ہے۔ مسلم معاشرے اس آزار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے، اب بھارت کی باری ہے۔
عالم اسباب میں دنیا اسی کی ہے جو طاقت میں ہے لیکن قوموں کا عروج و زوال بھی اسی عالم اسباب کا حصہ ہے۔ محض قوت کے بل بوتے پر کوئی قوم تا دیر غالب نہیں رہ سکتی، اس کے لیے اخلاقی وجود کا ہو نا بھی ضروری ہے۔ یہ جواز موجود نہ ہو تو اسے تخلیق کیا جاتا ہے، بھلے جھوٹ بول کر ہی سہی۔ امریکہ ایک سپر پاور ہے اور اس وقت کوئی ایسی قوت موجود نہیں جو اس کے وجود کو چیلنج کر سکے لیکن وہ بھی جب کسی ملک کو روندتا ہے تو اس کا ایک جواز تخلیق کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس جواز میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔ آرٹیکل 370 وغیرہ بھی بھارتی قبضے کے بعد تراشا گیا ایک اخلاقی جواز تھا۔ یہ جواز جیسا بھی تھا بھارت کے نزدیک یہ اس کے اخلاقی وجود کا ایک ثبوت تھا اور بھارتی قیادت اہل کشمیر اور دنیا کو باور کراتی تھی کہ دیکھ لیجیے ہم کشمیر میں قابض نہیں ہیں۔ مودی نے بھارت کو اس جواز سے محروم کر دیا ہے۔ عالم اسباب میں اس کا پلڑا بھاری ہے لیکن قوموں کے عروج و زوال کی داستان بتاتی ہے کہ زوال کا سفر عین عروج میں شروع ہوتا ہے۔ اب ہماری سفارتکاری اور اعصاب کا امتحان ہے۔
الحاق کی نامعتبر دستاویز اب بیچ چوراہے میں پڑی ہے۔ ہندوستان کے اکابرین کے تمام وعدے مودی نے پامال کر دیے ہیں۔ آج بھارت صریحا ایک غاصب قوت ہے اور اس کے اخلاقی وجود کو سہارا دینے کے لیے کوئی عذر تک موجود نہیں۔ فی الوقت وادی کو خاموش کر دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ردعمل نہیں آئے گا۔ دیر ہو سکتی ہے مگر رد عمل ضرور آئے گا۔ کوئی بھی زندہ وجود اس طرح کی توہین اور تذلیل برداشت نہیں کر سکتا۔ مودی نے بھارت کی بنیاد میں بارود رکھ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی فالٹ لائن وجود میں آ گئی ہے، اس پر کوئی ہلکی سی ضرب لگانے والا ہو تو یہ بھارت کی بنیادیں ہلا دے گی۔ یہ ضرب لگانے والا شاید آج کے حالات میں کوئی نظر نہ آ رہا ہو لیکن حالات تو مزاج یار ہوتے ہیں، کیا خبر کب بدل جائیں۔
بھارت نے جس بے رحمی سے اپنے آئین کو پامال کیا ہے اس کی حدت صرف کشمیر نہیں پورے بھارت میں محسوس کی جائے گی۔ آئین کی کچھ مبادیات ہوتی ہیں جن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی۔ یہ مبادیات ایک ضامن بن کر مختلف اکائیوں کو فیڈریشن سے جوڑے رکھتی ہیں۔ کشمیر کو بھی ایک ایسی ہی ضمانت دی گئی تھی کہ اس کا خصوصی سٹیٹس ہو گا اور اسے کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی مرضی کے بغیر نہیں بدلا جائے گا۔ آئین ساز اسمبلی تو دہائیاں گزریں موجود ہی نہیں۔ حتی کہ جو ایک عام کٹھ پتلی اسمبلی تھی اسے بھی پہلے برطرف کر دیا تا کہ اس سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہ پڑے۔ بھارت نے کشمیری قیادت کو گرفتار اور نظر بند کر کے یہ ضمانت پامال کر دی۔ کیا اس بے ہودہ حرکت کے اثرات صرف وادی کشمیر تک محدود رہیں گے؟ہر گز نہیں۔ بھارت کے طول و عرض میں بے چینی پیدا ہو گی کیونکہ مودی نے وحشت کا وہ راستہ کھول دیا ہے جو دو درجن سے زائد بھارتی ریاستوں کو کشمیر بنا دے گا۔
بھارت مختلف اکائیوں پر مشتمل ایک وجود ہے۔ یہ صرف ایک ریاست کشمیر نہ تھی جسے کچھ ضمانتیں دی گئی تھیں۔ ناگا لینڈ کی ریاست میں بھی زمین کی ملکیت اور انتقال کے خصوصی قوانین نافذ ہیں۔ یہی معاملہ گوا کی ریاست کے ساتھ ہے۔ سکم، میزو رام، آسام، ناگا لینڈ سمیت یہ دو درجن سے زیادہ ریاستیں ہیں جنہیں مختلف ضمانتیں دی گئی ہیں اور قرار دیا گیا ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ ضمانتیں ختم نہیں ہو سکتیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ کشمیر کے ساتھ اور اس کو دی گئی ضمانتوں کے ساتھ ہوا اس کے بعد باقی ریاستیں کہاں کھڑی ہیں؟کیا ا دھر بے چینی نہیں ہو گی؟ کیا وہ فالٹ لائن نہیں بن چکیں؟ کیا ضمانت ہے کہ ان درجنوں فالٹ لائنز پر کبھی کوئی انگلی نہیں رکھے گا؟ان ریاستوں میں نہ صرف یہ کہ بغاوتیں پھوٹ چکی ہیں بلکہ خام مال پوری قوت سے دستیاب ہے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس خام مال سے کبھی بھی بھارت کے لیے یک عفریت وجود میںنہیں آ سکے گا؟
ہندو شائونزم نے اب اعلانیہ بھارتی سیکولرزم کی جگہ لے لی ہے۔ یہ شائونزم سماج کو تباہ کر دے گا۔ بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہندو ریاست بن چکا ہے لیکن اس کے سماج کی ہیئت ترکیبی ایسی ہے کہ وہ اس تبدیلی کو اگل دے گا۔ ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کو انتہا پسند ہندو شائونزم کی لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ تیس کروڑ سکھ، بیس کروڑ سے زائد مسلمان اور چھ کروڑ سے زائد مسیحیوں کے اس ملک کو ہندو شائونزم کی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش بھارتی سماج کے تارپود بکھیر دے گی۔
پاکستانی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے، جنگ کے بغیر بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بار بار امن کا مالا چبنا چھوڑیے، ایٹمی خطرے کی بار بار یاد دہانی کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے۔ سفارتی سطح پر پورے قد کے ساتھ باوقار رویہ اختیار کیجیے۔ یہ کھیل یہاں نہیں رکے گا۔ ابھی پانی کا بحران پیدا کیا جائے گا اور بھارت اس پر کام کر رہا ہے۔ ابھی تک اس نے ہمارے دریائوں کا پانی مکمل طور پر نہیں روکا تو اس کی وجہ اس کی ریاستوں میں پانی کے تقسیم کے فارمولے پر موجود مسائل ہیں۔ یہ مسائل حل ہوتے ہی وہ ہمارا پانی روک دے گا۔ اپنے کارڈز اپنے ہاتھ میں رکھیے، اوردشمن کی فالٹ لائنز پر نظر رکھیے۔ آج وقت سازگار نہیں تو کیا ہوا، وقت تو موسم ہوتا ہے کیا خبر کب بدل جائے۔