نظریاتی بحثیں اب دنیا میں غیر متعلق ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے جیسے فکری اور معاشی طور پر پسماندہ معاشروں میں مگر آج بھی یہ کاروبار عروج پر ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ آج کا نوجوان جس چاند ماری کو نظریہ سمجھتا ہے یہ چند اہل ہنر کی فکری عیاشی کے سوا کچھ نہیں۔
ایک زمانہ تھا، میں نے بھی ان مباحث میں پوری قوت سے شرکت کی تھی لیکن میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ ساری بحث فکری افلاس، شعوری پسماندگی اور استحصال کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہمارا اصل مسئلہ کچھ اور ہے، نظریاتی مباحث کے مختلف عنوانات کے تحت ہماری نسل کا محض استحصال ہوتا رہا۔
معلوم نہیں ان مباحث کے روح رواں بد دیانت ہیں یا فکری طور پر پسماندہ تاہم ان کی چاند ماری کا آزار سب کے سامنے ہے۔ نوجوانوں کو انہوں نے ایک عجیب دنیا کی بھول بھلیوں میں ڈالے رکھا اور ان کے استحصال کی بدولت ان سب نے اپنے لیے عافیتیں تلاش کیں اور مالی وسائل سے زندگی کا لطف کشید کیا اور مزے سے زندگی جی رہے ہیں۔
فکری بحث کون کرتا ہے؟ اس عیاشی کا متحمل کون ہو سکتا ہے؟ اس واردات میں مختلف طبقات شامل ہیں۔ وہ ریٹائرڈ حضرت جو اب عمر کے آخری حصے میں ہے اور غم روزگار سے بے نیاز ہے۔ ساری عمر ریاستی مشینری کا کل پرزہ رہ کر جملہ مراعات سے آج تک مستفید ہونے والا یہ بندہ حُر آپ کو بتا سکتا ہے کہ نظریے کی قوت لے کر اٹھو اور اس نظام کو تہس نہس کر دو۔
اس نیم خواندہ معاشرے میں نظریاتی مباحث کا ہراول دستہ انہی ریٹائرڈ مردان قلندر پر مشتمل ہے جو آج بھی اسی نظام کی پنشن کھاتا ہے لیکن نوجوانوں کی نظریے کے بانس پر چڑھا کر وہاں جا چھوڑآتا ہے کہ وہ خواب نگر کے شہزادے بن جاتے ہیں۔
ہوش اس وقت آتا ہے جب عملی زندگی کے تقاضے دامن سے لپٹ جاتے ہیں لیکن تب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ریٹائرڈ مردان حق کو اپنی چاند ماری کے لیے تب تک نئی نسل دستیاب ہو چکی ہوتی ہے۔ ہر معاملے میں ان کی ترجیح یورپ ہے لیکن فضائل یہ طالبان، افغانستان، اور شام و عراق کے غازیوں کے بیان کرتے ہیں۔
کچھ وہ آسودہ حال لوگ ہیں جو سال کے چھ مہینے یورپی ممالک کے دورے فرما کر جب وطن لوٹتے ہیں تو آسودہ حالی سے ٹپکتے ماحول میں محافل منعقد کر کے فیض کو یاد کرتے ہیں اور نوجوانوں سے سرگوشی کرتے ہیں کہ بچو تمہاری زندگی تب بدلے گی جب لال لال لہرائے گا۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کو گالی دیتے ہیں اور کمیونزم کے عشق میں دبلے ہوئے پھرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ماسکو یا چین میں قیام پزیر ہو یا اس کی خواہش رکھتا ہو۔ اسے جب بھی موقع ملے گا یہ سرمایہ دارانہ نظام کی لعنت میں ڈوبے یورپ میں جا کر داد عیش دے گا، سرمایہ دارانہ نظام کو وہیں بیٹھ کر گالی دے گا۔
وہیں سے دانشوری فرمائے گا اور کبھی چھٹیوں پر پاکستان آئے گا تو فیض کی یاد میں ایک تقریب سجا کر کہے گا کمیونزم ہی راہ نجات ہے۔ حمزہ علوی جیسے مارکسسٹ بھی روس اور چین کی بجائے برطانیہ کو اپنی جائے قیام بناتے ہیں اور طارق علی جیسا مارکسسٹ دانشور بھی ماسکو اور بیجنگ کی بجائے لندن میں رہتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ہم تو اپنے نظریاتی آئیڈیل کے قریب رہنا پسند کریں گے اور ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک گھر بنا کر رہیں گے اور ہر ویک اینڈ پر کازان جا کر سرمایہ دارانہ نظام کی تباہ کاریوں پر لیکچر دیا کریں گے۔
مغرب اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عظیم جدوجہد کرنے کے لیے انہوں نے سرمایہ دارانہ مغرب کا ہی انتخاب فرمایا اور وہیں بیٹھ کر اپنی نظریاتی جدوجہد انہی کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ماسکو اور بیجنگ کیوں نہیں جاتے۔
جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد معیشت کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ ساری عمر سرامایہ دارانہ نظاام کو چیلنج کرنے اور مغرب کے اخلاقی زوال کا نوحہ پڑھنے کے بعد عمر کے آخری حصے میں ان کا انتخاب بھی یورپ ہی ٹھہرا اور وہاں جا کر قیام پزیر ہو گئے۔
طاہر القادری اپنے نظریے سمیت کینیڈا میں ہیں اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی بھی۔ ان میں سے کسی کو خیال نہیں آیا کہ اب عمر کا آخری حصہ ہم سعودی عرب جا کر گزار لیتے ہیں، عبادت کرٰن گے اور اللہ کو راضی کریں گے۔۔ نوجوانوں کے لیے یقینا پروفیسر خورشید احمد صاحب کا آج بھی یہی مشورہ ہو گا کہ مغرب تو دارالکفر ہے، طاغوت اور فحاشی میں ڈوبا ہوا ہے اس لیے نوجوانوں کو افغانستان، شام اور سعودی عرب سے انسپریشن لینی چاہیے۔
ان سب نظریاتی ہستیوں کو معلوم ہے کہ ڈھنگ کا علمی کام یورپ اور سرمایہ دارانہ معاشروں میں ہی ہو سکتا ہے۔ آسودگی بھی وہیں ہے اور عافیت بھی وہیں ہے۔ اپنے معاشروں میں صرف ہیجان پھیلایا جا سکتا ہے اور اپنے اپنے حصے کے سستے بے وقوف تلاش کیے جاتے ہیں۔
بے وقوفوں کی تلاش کے اس کھیل میں بہت سارے لوگوں کا مفاد اور روزگار وابستہ ہو جاتا ہے۔ کوئی ایک عصبیت کو مخاطب کرتے ہوئے دانشوری فرماتا ہے تو کوئی دوسری عصبیت کا پرچم تھام لیتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے نظریے کے اس دھندے میں اسے بھی اپنے حصے کے بے وقوف مل جائیں جو اسے مذہبی، سیکولر، سوشلسٹ اور دیگر عنوانات کے تحت " رجل رشید "سمجھ کر اس کے دھندے کو چلاتے رہیں۔
یوال نوح حریری کی کتاب Homo Deus پڑھی ہے اور بیٹھا سوچ رہا ہوں دنیا کہاں پہنچ گئی، کیا سوچ رہی ہے اور ہم کہاں چاند ماری کر رہے ہیں۔ جان لیجیے بھوک کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اپنی معیشت پر توجہ دیجیے۔
گر یہ نہیں تو بابا، باقی کہانیاں ہیں۔ سردیوں میں ہیٹر لگا کر اور گرمیوں میں ایر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھ کر نظریے پر دانشوری فرمانا آسان ترین کام ہے۔ یہ اہل دانش کی فکری عیاشی ہے۔ ان اہل ہنر نے اپنے لیے جہان بھر کی نعمتیں اکٹھی کر رکھی ہیں لیکن غریب کی پشت پر نظریہ لاد رکھا ہے۔ یہ بوجھ کسی کی کمر سیدھی ہونے ہی نہیں دیتا۔ میر صاحب یاد آ گئے :اندو ہ و دردِ عشق نے بیمار کر دیا۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ میر کو" گفتگو عوام سے ہے"۔