نگران وزیر اعظم کا تعین کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے آپ بحث مباحثے تو بہت سن رہے ہوں گے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ آئین کے مطابق نگران وزیر اعظم کیسا ہونا چاہیے؟
نگران وزیر اعظم کے حوالے سے جب بات ہوتی ہے تو بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ اسے غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو آئین کے مطابق نگران وزیر اعظم کے لیے غیر جانب دار ہونا ضروری نہیں۔ فیصلہ سازوں نے آئین میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی۔ انہوں نے پورا انتظام کر رکھا ہے کہ وہ جب جہاں اور جیسے جو کچھ بھی کرنا چاہیں آئین ان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکے۔
بے نظیر بھٹو کی جب حکومت ختم ہوئی تو ان کا مخالف سیاسی دھڑا اسلامی جمہوری اتحاد کہلاتا تھا۔ اس کی سربراہی غلام مصطفی جتوئی کے پاس تھی۔ یہی جتوئی صاحب نگران وزیر اعظم بنا دیے گئے۔ (یاد رہے کہ اس واردات کے نتیجے میں جماعت اسلامی اور ن لیگ ملک میں اسلامی انقلاب لانے جا رہی تھیں، لیکن دونوں میں آج تک نہ کوئی شرمندہ ہوا نہ کسی نے قوم سے معافی مانگی)۔
غیر جانب داری تو دور کی بات، آئین کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کو نگران وزیر اعظم بنانے کی کوئی ممانعت نہیں۔ بس اتنی سی شرط ہے کہ وہ ان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ یعنی بلاول بھٹو اور حتی کہ خود شہباز شریف کو بھی نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے تو آئین اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ آئین صرف اتنا کہتا ہے کہ وہ اس الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
تو کیا الیکشن میں حصہ نہ لینے کی شرط کوئی ایسا بندوبست ہے جو غیر جانب داری کو یقینی بناتا ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ الیکشن میں حصہ نہ لینے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ آپ کسی کو بھی نگران وزیر یا وزیر اعظم بنا لیں، اس کے بعد جب آپ کی حکومت بن جائے تو آپ اسے بغیر الیکشن لڑے وزیر اعظم کا مشیر بنا لیں اور ساتھ ہی نوٹی فی کیشن جاری کر دیں کہ مشیر صاحب کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ یعنی قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ الیکشن نہ لڑنے کے باوجود وہی کچھ حاصل کر لیا جائے تو الیکشن میں حصہ لے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح یہ چور راستہ بھی قانون میں موجود ہے کہ ایک آدمی کو نگران حکومت کا حصہ بنا لیا جائے، اس کے بعد دو چار ماہ بعد کسی رکن اسمبلی سے استعفی دلوا دیا جائے۔ نشست خالی ہو جائے۔ خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب ہوں۔ اس ضمنی انتخاب میں وہی صاحب امیدوار بن کر میدان میں اتر آئیں۔ ممانعت عام انتخابات تک تھی، ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی کوئی پابندی نہیں۔ یعنی آئین میں انتخابی شفافیت کو قائم رکھنے کے لیے نگران حکومت کے وزراء پر جو پابندی عائد کی گئی ہے عملی زندگی کی اس کی حقیقت دو چھٹانک کی بھی نہیں ہے۔ بس اقوال زریں ہیں جو پڑھنے سننے میں بڑے اچھے لگتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ معنویت۔
نگران وزیر اعظم یا وزرائے کرام کا غیر جانب دار ہونا تو دور کی بات ہے، آئین یا الیکشن ایکٹ میں یہ بھی کہیں نہیں لکھا کہ ان کا پاکستان کا شہری ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے معین قریشی صاحب کو نگران وزیر اعظم پہلے بنا دیا جاتا ہے اور پاکستان کا شناختی کارڈ انہیں بعد میں جاری کیا جاتا ہے۔ شناختی کارڈ جاری کرواتے وقت سوال اٹھتا ہے کہ جناب عزت مآب وزیر اعظم کی رہائش کہاں کی لکھی جائے تو رہائش کے خانے میں وزیر اعظم ہائوس لکھ دیاجاتا ہے۔
صاحب جب وزیر اعظم بنتے ہیں تو اچانک انہیں خیال آتاہے کہ ان کے تو والدین بھی ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی قبروں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل باسٹھ پر پورا اترکر ایوان میں پہنچ کر وزیر بننے والے شیخ رشید صاحب انتظامیہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ کوئی لاوارث قبر تلاش کرکے وزیر اعظم کو بتا دو ان کے والدین کی قبر تلاش کر لی گئی ہے۔ یوں پاکستان کا یہ نگران وزیر اعظم والدین کی قبر پر جاتا ہے۔
یہ معاشیے، ایسے نگران وزیر اعظم ہوتے ہیں جو صرف نگرانی فرمانے پاکستان آتے ہیں۔ قوم کو ووٹ کے تقدس کا اقوال زریں سناتے ہیں اور نوے دن کے بعد گدھے کے سینگ کی طرح یوں غائب ہوتے ہیں کہ زندگی میں واپس مڑ کر نہیں آتے۔
نگران وزیر اعظم کے لیے آئین میں ایسی بھی کوئی شرط نہیں کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ بس اتنی سی شرط ہے کہ وہ جو کوئی بھی ہو وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مرضی سے ہو اور یہ متفق نہ ہو سکیں تو پھر معاملہ کمیٹی کو سونپ دیا جائے وہ بھی طے نہ کر سکے تو الیکشن کمیشن جسے چاہے وزیر اعظم بنا دے۔ پھر یہ وزیر اعظم جسے چاہے کابینہ میں شامل کر لے۔ اس صوابدیدی انداز سے چوکیدار بھرتی نہیں ہو سکتا جس صوابدیدی انداز سے یہاں نگران وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے۔
پبلک آفس ہولڈر کی عمومی شرائط کا اگر اطلاق کر بھی لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ عام وزیر اعظم کے لیے جو اہلیت کا معیار ہے وہی نگران کے لیے ہوگا تو یہ بات اس لیے ناقابل فہم ہے کہ وزیر اعظم کے لیے تو بہت سی شرائط ہیں، اب آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نگران وزیر اعظم کے لیے کون سی شرط قابل عمل ہے اور کون سے ساقط ہوگی؟ وزیر اعظم کے خلاف تو عدم اعتماد بھی ہو سکتی ہے، نگران وزیر اعظم کو ہٹانے کا کیا طریق کار ہوگا؟
وزیر اعظم تو اعتماد کا ووٹ لیتا ہے، نگران وزیر اعظم اس سے بھی بے نیاز ہے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی کو جوابدہ ہے، نگران وزیر اعظم کسی کو جواب دہ نہیں۔ وزیر اعظم کی مدت طے شدہ ہے نگران وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا کام تو تین ماہ تک میں الیکشن کرانا ہے لیکن یہ مدت گزر بھی جائے (جیسے پنجاب میں گزر چکی ہے) تو نگران حکومت کو ہٹانے کا کوئی بندوبست آئین میں موجود نہیں۔ وزیر اعظم کا ایک اپوزیشن لیڈر ہوتا، نگران اس سے بھی بے نیاز ہے۔
وزیر اعظم کے لیے لازم ہے وہ سچا ہو، پارسا ہو، دیانت دار ہو، فاسق فاجر نہ ہو۔ نگران وزیر اعظم کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں۔ وہ بے شک سچا نہ ہو، پارسا نہ ہو، فاسق ہو فاجر ہو، آئین میں کوئی پابندی نہیں۔ کیونکہ آرٹیکل باسٹھ کی یہ پابندیاں بنیادی طور پر رکن پارلیمان کے لیے ہیں اور نگران وزیر اعظم چونکہ رکن پارلیمان نہیں ہوتاتو اس کے لیے یہ شرائط موجود نہیں۔ نہ ہی اسے کسی بھی شرط اہلیت پر پرکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔
جب آئین اور الیکشن ایکٹ میں سرے سے کوئی پابندی ہی نہیں ہے، جب کسی قسم کی اہلیت کا کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے، جب قانون سازوں نے ناقص اور نامعتبر قوانین بنا کر اپنے لیے سارے چور راستے کھول رکھے ہیں تو پھر پریشانی کیسی؟
جو چاہے آپ کاحسن کرشمہ ساز کرے۔ ونڈ کھائو تے کھنڈ کھائو۔