کیا آپ جنرل گریسی کو جانتے ہیں؟ یہ پاکستان کے دوسرے کمانڈر انچیف تھے۔ قائد اعظم نے انہیںکشمیر پر حملے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے اس حکم پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اکتوبر 1947ء میں قائد اعظم کے حکم پر عمل نہ کرنے والے جنرل گریسی کو صرف چھا ماہ بعد ہی حکومت پاکستان سے تحریری طور پر یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے اور اسے بچانا ہے تو فوری طور پر کشمیر میں فوجیں بھیجی جائیں۔ کیا آپ غور نہیں فرمائیں گے کہ جو جرنیل چھ ماہ قبل بابائے قوم کے حکم کے باوجود کشمیر پر حملہ نہیں کر رہا، اب وہ جرنیل دہائی دے رہا تھا پاکستان کو بچانا ہے تو فوری طور پرکشمیر میں فوجیں اتاریے؟اپریل 1948 ء میں، یعنی موسم سرما کے اختتام پر بھارت نے کشمیر میں جاری مسلح مزااحمت کچلنے کے نام پر فوجی جارحیت شروع کر دی۔ اس صورت حال میں جنرل گریسی نے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کا تفصیلی جائزہ لیا اور تحریری طور پر اپنی سفارشات گورنر جنرل پاکستان کو پہنچائیں۔ پہلے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جنرل گریسی نے صورت حال کا تجزیہ کیسے کیا تھا اور ان کے نتائج فکر کیا تھے۔ اس کے بعد ہم ان کی سفارشات کو دیکھیں گے۔
جنرل گریسی کا کہنا تھا کہ بھارت جنوب میں بھمبر، میر پور اور پونچھ اور شمال میں مظفر آباد اور کوہالہ تک کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بھمبر اور میر پور تک پہنچ جاتا ہے تو گویا وہ دریائے راوی اور دریائے چناب کی رکاوٹیں عبور کر چکا ہو گا اور جہلم کا پل اس کی دسترس میں ہو گا جو پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وہ پاکستان کی سرحد کے اوپر بیٹھا ہو گا اور حملہ کرنا چاہے تو پاکستان اور اس کے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ حائل نہیں ہو گی۔ یہی نہیں بلکہ منگلا ہیڈ ورکس کے پانیوں پر بھی بھارت کا قبضہ ہو گا۔ یہ قبضہ ہو گیا توپنجاب کے کئی اضلاع اس کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ جنرل گریسی کے تجزیے کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ اگر دشمن مظفر آباد اور کوہالہ تک آ جاتا ہے تو وہ پاکستان کے گیٹ وے پر قابض ہو جائے گا۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہو گی۔ وہ کسی بھی وقت آپ کی سرحد پر حملہ کر سکتا ہے اور اسے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ کوہالہ پل پر بھارت کا آ کر بیٹھ جانا عسکری اعتبار سے تباہ کن ہو گا۔ جنرل گریسی کے تجزیے کا تیسرا پہلو یہ تھا پونچھ میں اگر بھارت کا قبضہ ہو گیا تو نہ صرف اس سے پاکستانی فوج میں موجود پونچھ کے لوگوں کا مورال ڈائون ہو گا بلکہ اس کا اثر پوری فوج پر پڑے گا۔ جنرل گریسی کا چوتھا نکتہ یہ تھا کہ اگر بھارت بھمبر میرپور پونچھ مظفر آباد میں قابض ہو جاتا ہے مہاجرین کی ایک غیر معمولی تعداد پاکستان کا رخ کرے گی اور پاکستان پہلے ہی مہاجرین کی بھاری تعداد کو سنبھالنے میں مصروف ہے۔ نئے مہاجرین کی بھاری تعداد کا پاکستان آ جانا ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ہو گا۔
پانچوں نکتہ انتہائی اہم تھا۔ جنرل گریسی نے کہا کہ دشمن اگر ان علاقوں تک آ جاتا ہے تو پاکستان میں کچھ سیاسی قوتیں بھی پاکستان کے لیے معاملات کو بہت سنگین بنا سکتی ہیں۔ یہ سیاسی قوتیں کون سی تھیں، یہ ایک دلچسپ موضوع ہے لیکن اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ سردست حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کا طعنہ دینے والے " مطالعہ پاکستان، کے ناقدین کرام کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس خدشے کا اظہار جنرل گریسی نے بھی کیا تھا۔ جنرل گریسی نے ایسا کیوں کہا تھا؟ یقینا ان کے پاس کچھ ٹھوس شواہد ہوں گے کہ باہر سے حملہ ہوا اور دشمن ان علاقوں پر قابض ہو گیا تو کچھ حملہ آور اندر سے بھی اٹھیں گے۔
اس تجزیے کے بعد جنرل گریسی نے حکومت پاکستان کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ انہوں نے لکھا کہ اگر پاکستان مہاجرین کے ایک بہت بڑے مسئلے سے دوچار ہونے سے بچنا چاہتا ہے، اگر وہ خود کو دشمن کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہتا، اگر وہ اپنا دفاع کرنا چاہتا ہے، اگر وہ عوام اور افواج کا مورال تباہ اور برباد نہیں کروانا چاہتا، اور اگر وہ مقامی سیاسی قوتوں کو پاکستان کے خلاف بر سر پیکار ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتا تو یہ لازم ہے وہ اپنی افواج کو کشمیر میں اتارے اور بھارت کی پیش قدمی کو روک دے۔ کالم میں جنرل گریسی کی سفارشات کو من و عن انگریزی میں نقل کرنا ممکن نہیں تاہم یہ پڑھنے کی چیز ہے اور ہر اس شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے جو کشمیر کے موضوع میں دلچسپی رکھتا ہے۔
پاکستان نے کشمیر میں فوجیں "سلیف ڈیفنس، کے تحت اتاریں اور اقوام متحدہ چارٹر کا آرٹیکل 51 پاکستان کو اس بات کا حق دیتا تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مشکوک حالات میں الحاق کی ایک نا معتبر دستاویز کی وجہ سے پاکستان اپنی سلامتی کا سودا کر لیتا۔ کشمیر کا مسئلہ جس طے شدہ اصول کے تحت حل ہونا تھا وہ اصول ابھی لاگو نہیں ہوا تھا۔ ان حالات میں کیا بھارت پیش قدمی کرتا رہتا اور پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشا دیکھتا رہتا؟ بھارت کے عزائم بہت واضح تھے۔ اس کے قائدین بار ہا اس عزم کا اظہار کر چکے تھے کہ پاکستان کا قیام عارضی ہے، وہ زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکے گا اور ناکام ہو کر بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ کانگریس کے اچاریہ کرپلانی بار بار کہہ چکے تھے کہ ہم اکھنڈ بھارت سے دستبردار نہیں ہوئے، ہم نے پاکستان ایک عارضی انتظام کے طور پر قبول کیا ہے۔ نہرو اور سردار پٹیل کے درجنوں بیانات موجود ہیں جو اسی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان ان بیانات کو محض سیاسی بیانات سمجھ کر نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ بھارت کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ اس کے مندوب نے سلامتی کونسل کے صدر کو یکم جنوری 1948ء کو جو خط لکھا اس میں دو مرتبہ یہ بات لکھی کہ بھارت پاکستان کے اندر گھس کر حملہ اور کارروائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔
ان حالات میں جنرل گریسی نے ایک فوجی کمانڈر کے طور پر پاکستان کو لاحق خطرات کا احساس کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر کشمیر میں فوجیں اتاری جائیں اور حکومت نے سیلف ڈیفنس میں وہاں فوجیں اتار دیں۔ ایک خود مختار ریاست کے پاس اس کے علاوہ اور راستہ ہی کیا تھا؟