Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Qayadat Ki Zati Zindagi Ki Hudood Kahan Tak Hain?

Qayadat Ki Zati Zindagi Ki Hudood Kahan Tak Hain?

ذاتی فعل اور نجی زندگی جیسے تصورات کی حیثیت آج کے دور میں مسلمہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کیا قیادت بھی ان تصورات کو اپنی ڈھال بنا سکتی ہے؟

قانون اور اخلاقیات کی بحث بہت پرانی ہے۔ یہ سوال صدیوں سے زیر بحث ہے کہ اخلاقیات کی عمل داری کہاں تک ہے اور قانون کی دنیا کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی ایک چیز جو اخلاقی طور پر عیب سمجھی جاتی ہو، کیا اسے قانون کا موضوع بھی ہونا چاہیے؟ اس بحث میں اس نکتے پر اہل علم کا اجماع ہے کہ بہت سارے مقامات پر اخلاقیات اور قانون کی حدیں مل جاتی ہیں۔

یہی جورسپروڈنس ہمیں پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں بھی ملتی ہے۔ آرٹیکل 14 میں ہر فرد کے پرائیویسی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسی کی شرح میں آگے چل کر یہ تصور سامنے آمنے آتا ہے کہ فلاں کام فلاں شخص کا ذاتی فعل ہے، جس سے اجتماعیت متاثر نہیں ہو رہی اس لیے اسے چھوڑیے اور نظام اجتماعی میں اس کے کردار پر بات کیجیے۔

آئین کے آرٹیکل 62 میں بتا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص قیادت کے منصب پر فائز ہے یا اس کا امیدوار ہے تو اسے نجی زندگی اور ذاتی فعل کی ڈھال اس طرح میسر نہیں رہے گی جیسے عام آدمی کو میسر ہے۔ اگر چہ اس صورت میں بھی اس کی پرائیویسی پامال کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر اس کے باے میں کچھ غلط چیزیں سامنے آتی ہیں تو انہیں یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔

جن امور کا تعلق آرٹیکل62 سے ہے، انہیں یہ خصوصی حیثیت اس لیے دی گئی ہے کہ جو شخص قیادت کے منصب پر فائز ہونا چاہتا ہے، اس کو جانچنے کا معیار عام آدمی سے مختلف ہوگا۔ آئین کے اس معیار کی چھلنی سے جو نہیں گزرنا چاہتا وہ اس بات کا حق رکھتا ہے کہ نہ گزرے۔ لیکن پھر وہ قیادت کا اہل نہیں ہے۔ قیادت کرنا ہے تو اخلاقیات کی کچھ پیمانے بھی قانون کی صورت نافذکر دیے گئے ہیں۔ پھر یہ کہ جو ان اخلاقی پیمانوں پر پورا نہیں اترتا اس پر کوئی الگ سے مقدمہ نہیں بنتا، بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ قیادت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ نا اہل قرار پاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر الگ سے کوئی مقدمہ نہ ہو تو وہ ایک عام آدمی کے طور پر زندگی معمول کے مطابق گزار سکتا ہے۔

ایک عام فرد میں اور قیادت کے دعویدار میں یہ فرق قابل فہم ہے۔ جس نے قیادت کرنی ہے اورقوم کے فیصلے کرنے ہیں، اس کے دامن کو عام آدمی کے دامن سے صاف ہونا چاہیے۔ امریکہ جیسے معاشرے میں مرضی سے جنسی تعلقات قائم کرنا جرم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جب بات کلنٹن اور لیونسکی سکینڈل تک آئی تو کلنٹن کا مواخذہ ہوا۔ سینیٹ میں ان کے خلاف اکیس دن کارروائی ہوتی رہی، انہیں غلط بیانی پر جرمانہ ہوا اور امریکی سپریم کورٹ میں ان پر پانچ سال تک پابندی لگا دی گئی کہ وہ کسی مقدمے میں پیش نہیں ہو سکتے۔

کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کلنٹن کا ذاتی فعل ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنان نے کسی کے خلاف گالم گلوچ کی مہم نہیں چلائی۔ ایک فرد کی ذات پر الزام کو ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنی پارٹی کا مسئلہ نہیں بنایا۔ صدر پر الزام لگا صدر نے ہی اس کا سامنا کیا۔ خود صدر کلنٹن بھی یہ نہیں کہہ سکے کہ یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے کیونکہ وہ اور ان کا سماج جانتا تھا کہ بہت سی قباحتیں عام آدمی کرے تو گوارا کی جا سکتی ہیں لیکن وہ کام اگر قیادت کرے تو یہ گوارا نہیں کیا جا سکتا۔

سماجی سطح پر بھی کسی کا کردار بالعموم زیر بحث نہیں آتا لیکن اگر کسی کا بنیادی مقدمہ اور دعوی ہی یہ ہو کہ وہ تو کردار کا ہمالہ ہے اور ملک و قوم کی فکری تربیت بھی اسی نے کرنی ہے اور سماجی انصاف اور اسلام کے اعلی اصولوں پر ریاست بھی اسی نے بنا کر دکھانی ہے تو پھر اس کے کردار کا زیر بحث آنا منطقی اور فطری امر ہے۔

اگر چہ اس باب میں بھی نجیب رویہ وہی ہے جس کا مظاہر ہ مولانا فضل الرحمن نے کیا کہ جب ان سے ایسے ہی ایک معاملے میں سوال ہوا تو انہوں نے کراہت کے اظہار کے ساتھ اس پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم یہ بھی اہم ہے کہ جس آلودگی سے فضل الرحمن صاحب نے یوں کراہت کا اظہار کیا کہ اس پر بات تک کرنا گوارا نہ کی و ہ آلودگی سیاسی قیادت کے دامن سے لپٹ جائے تو اسے کیسے گوارا کر لیا جائے؟

کسی سیاسی حریف نے یہ کام نہیں کیا، جتنے الزام بھی جناب عمران خان کے خلاف آ رہے ہیں، ان کے اپنے قریبی حلقے سے آ رہے ہیں۔ کبھی سابقہ اہلیہ کی جانب سے، کبھی پارٹی کی ایم این اے پھٹ پڑتی ہے، کبھی ان کا اپنا نکاح خواں بول پڑتا ہے، کبھی کوئی خاتون فرد عمل پر سوال اٹھاتی ہے، یہ سلسلہ یقینا ناخوشگوار ہے، لیکن یہ ایسا معاملہ بھی نہیں کہ زیادہ دیر تک نظر انداز کیا جاتا رہے۔

اس معاملے میں اب یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ خان صاحب کا مقدمہ چونکہ اخلاقی کرپشن کی بجائے مالی کرپشن پر کھڑا ہے اس لیے جب تک ان کی مالی کرپشن سامنے نہیں آتی وہ سرخرو ہیں۔ یہ پیمانے کوئی فرد واحد نہیں بناتا، یہ معاشرے کا کام ہوتا ہے اور اخلاقیات اور قانون کا۔ یہ کسی کی افتاد طبع کا میدان نہیں ہے کہ وہ خود بیٹھ کر فیصلہ کرے کہ کون سی کرپشن بری ہوتی ہے اور کس کرپشن کے خلاف میدان عمل میں آنا دلاوری ہے۔ کرپشن کی دونوں صورتیں، قانون آئین اور اخلاقیات میں جرم ہیں۔

اسی طرح یہ موقف بھی ناقص ہے کہ کوئی جو مرضی کر لے، خان صاحب کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ان کے چاہنے والے ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اول تو یہ بات درست نہیں اور اگر یہ درست بھی ہے تو یہ اصول نہیں بن سکتا۔ یہ ایک خوفناک اخلاقی بحران کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اخلاقیات کے باب میں کسی کلٹ یا محبت کے زیر اثر اس قدر بے نیاز ہو جانا بذات خود کسی سانحے سے کم نہیں۔

اسی کی ایک صورت اس وقت سامنے آئی جب خان صاحب پرآئن بوتھم نے الزام لگایا تووہ اس کا دفاع کرنے عدالت میں گئے اور مقدمہ جیت گئے، لیکن جب سیتا وائٹ نے مقدمہ کیا تو اس کا فیصلہ یکطرفہ ہوگیا اور عمران خان اس مقدمے کا سامنا نہ کر سکے۔

کاش یہ چیزیں ہمارے سیاسی بیانیے کا حصہ نہ بنتیں۔ سوالات ہی سوالات ہیں۔ اخلاقی تقاضا بھلے یہی ہے کہ اس سے خود کو بچایا جائے اور اس بحث کا حصہ نہ بنا جائے لیکن اس بحث سے صرف نظر ممکن نہیں کہ تواتر کے ساتھ اخلاقی وجود پر سوال اٹھنے لگیں تو کیا اسے قیادت کی ذاتی زندگی کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟