Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saltant e Osmania, Yaad To Aati Hogi?

Saltant e Osmania, Yaad To Aati Hogi?

فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر اس دل کو لہو کر دیا ہے جس میں انسانیت کی ہلکی سی بھی رمق موجود ہے۔ دنیا بھرمیں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ فلسطین کا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔ میں اس پرچم کو دیکھتا ہوں اور دل کو رہ رہ کر کچھ کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ اداسی اور کرب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر مسلمانوں نے برطانیہ کے ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ باقی صرف ایک کہانی۔ درد اور دکھوں میں لپٹی کہانی۔

یہ کچھ زیادہ پرانے وقتوں کی بات نہیں، یہ 10 جون 1916 کی بات ہے۔ اس روز شریف مکہ حسین بن علی اور برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری مک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ ْ اس بغاوت کو الثورۃ العربیہ الکبری، کا نام دیا گیا۔

جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیار کرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔ یہ پرچم ایک برطانوی سفارت کار کرنل مارک سائیکس نے تیار کیا۔

مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔ مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا۔

سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی اور سبز رنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چناگیا جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔

پرچم بھی تیار ہوگیا اور بغاوت بھی شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی۔ لیکن یہ افواج بے بس ہوگئیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔ پہلی وجہ عرب بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ سلطنت عثمانیہ باہر کے دشمنوں سے تو شاید نمٹ لیتی لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے خلاف ہو گئے تو سلطنت عثمانیہ بے بس ہوگئی۔

دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیلڈ مارشل اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔ یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے۔

آج شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ کو یہاں شکست ہوگئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا وہ ـ " نعرہ تکبیر" بلند کرتے ہوے داخل ہوا۔ 11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے عرب تھے اور الثورۃ العربیہ الکبری، کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا قومی پرچم ہے۔ فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔

اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے کلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔ بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چائو سےالثورۃ العربیہ الکبری، چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔ اتفاق دیکھیے کہ عرب بغاوت کے ذریعے یروشلم سے مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے والا یہ شخص یروشلم ہی میں دفن ہے۔ کیا عجب اس کی روح راتوں کو مسجد اقصی کے نواح میں بھٹکتی ہو اور دیکھتی ہو کہ میرے نامہ اعمال نے مسلمانوں کو آج کیا دن دکھائے ہیں۔

ان کا اقتدار بعد میں سمٹ کر اردن تک رہ گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بادشاہ سلامت ایک دن مسجد اقصی میں داخل ہوئے اور کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مسجد اقصی ان کے زیر انتظام رہی بعد میں اسرائیل نے یروشلم شہر پر بھی قبضہ کر لیا اور اب صرف کاغذی طور پر مسجد اقصی اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام ہے۔ غلطیاں یقینا سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔ القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہ کرتی تھی۔

اسی بغاوت کے پرچم تلے خود مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کو اسی یروشلم میں شکست دی اور تب سے اب تک انہیں سکھ کا ایک دن نہیں ملا۔ وہی پرچم اٹھا کر اب وہ اپنے معصوم بچوں کے لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم نے اسی پرچم کو اپنی ڈی پی پر لگایا تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں۔ مسلمانوں کو کبھی کبھی سلطنت عثمانیہ کی یاد تو آتی ہوگی۔