سانحہ ساہیوال کے ملزمان بری ہوئے تو جسٹس رستم کیانی یاد آئے۔ جسٹس صاحب پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ ایک روز انہوں نے فیصلہ دیا تو ایک بوڑھی اماں برہم ہو گئیں اور انہوں نے بھری عدالت میں کہہ دیا یہ عدالت نہیں ہے، یہ انصاف نہیں ہے۔ جسٹس کیانی نے انہیں اپنے پاس بلوا بھیجا اور دکھی لہجے میں کہا ماں جی آپ سے کس نے کہا یہ عدالت ہے، یہ تو کچہری ہے۔ یہاں ہم انصاف دینے نہیں بیٹھے یہاں ہم فائل دیکھ کر فیصلے کرنے بیٹھے ہیں۔ جسٹس کیانی کے اس ایک فقرے میں جہان معنی ہوشیدہ ہے۔
جج کے سامنے جو فائل پڑی ہوتی ہے اس نے اس میں درج شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جج کے علم میں بھی ہو کہ یہ واقعہ یوں ہوا ہے اور اس نے وقوعہ اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رکھا ہو تب بھی وہ اپنی شہادت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ فیصلہ اس نے اس فائل کی بنیاد پر کرنا ہے جو اس کے سامنے رکھی ہے۔ اب اگر پولیس ہی قتل کرتی ہے، پولیس ہی تفتیش کرتی ہے، پولیس ہی نے ثبوت اکٹھے کرنے ہیں اور پولیس ہی نے فائل تیار کر کے عدالت کے حضور پیش کرنی ہے تو کیسے ممکن ہے اس میں سچ بیان کیا جائے گا۔ چنانچہ سانحہ ساہیوال کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے۔ پولیس کا نظام، میں اپنے گذشتہ ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد یہ سوچ کر قائم کیا گیا کہ معاشرے کو غلام بنا کر رکھا جائے اور آئندہ کوئی بغاوت نہ ہو سکے۔ ڈیڑھ صدی گزر گئی لیکن ابھی تک وہی نظام اور وہی سوچ کارفرما ہے۔ آج بھی اہل اقتدار میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ان کا اقتدار پولیس کے سہارے قائم ہے۔ اسی کو تھانہ کچہری کی سیاست کہتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ پولیس ہاتھ میں رہے گی تو معاشرے میں ان کا رعب و دبدبہ قائم رہے گا۔ چنانچہ ایک غیر تحریری مفاہمت سی وجود میں آ چکی ہے کہ نچلی سطح کے اہلکاروں کو تو برائے وزن بیت معطل وغیرہ کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں پولیس کے افسران کی بات آئے گی وہاں پولیس کا دفاع کیا جائے گا۔ کیونکہ پولیس کو سزائیں دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ آئندہ اہل اقتدار کے ناجائز احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دے گی اور اس انکار کا مطلب یہ ہو گا کہ سماج ان کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔
سماج اگر اس چنگل سے آزاد ہو جاتا ہے تو تھانے کچہری کی سیاست دم توڑ دے گی اور آزاد سماج اہل اقتدار میں سے کسی کو بھی قبول نہیں۔ یہ زرداری ہوں، نواز شریف ہوں یا عمران خان ان سب کی سوچ وہی ہے جو ملکہ وکٹوریہ کی تھی۔ ان سب کو پولیس کا ایسا نظام چاہیے کہ معاشرے میں کسی کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہو۔ انہوں نے مقدمہ کراناہو تب بھی کسی سیاست دان کے در دولت پر حاضر ہوں، پولیس کسی کو ناجائز طور پر اٹھا لے یا جھوٹے مقدمے میں پھنسا دے تب بھی وہ انہیں اہل سیاست کے درباروں میں مدد کی بھیک مانگنے جائیں۔ اور یوں ان کا یہ بندوبست قائم و دائم رہے۔ چنانچہ آئین پاکستان میں انصاف کی فراہمی اور انسانی جان کی حرمت کے حوالے سے جو اصول طے کر دیے گئے ہیں ان کی حیثیت محض اقوال زریں کی سی ہے اور انہیں آج تک عملی شکل نہیں ی جا سکی۔
پولیس کا ڈھانچہ آج بھی وہی ہے جو ملکہ وکٹوریہ نے 1861میں قائم کیا تھا۔ ہم نے اس میں صرف اتنی تبدیلیاں کیں کہ افسران کے عہدوں کے نام بدل دیے اور کبھی یونیفارم تبدیل کر دی۔ تعزیرات پاکستان کے نام سے جو قانون یہاں رائج ہے وہ 159سال پرانا ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری 121سال پرانا ہے۔ سیلز آف گڈز ایکٹ 89سال پرانا ہے۔ سپیسیفک ریلیف ایکٹ کو بنے 140سال ہو گئے ہیں۔ سٹیمپ ایکٹ 119سال کا ہو چکا ہے۔ ٹرانسفر آف پراپرٹی کا جو قانون ہم نے رائج کر رکھا ہے وہ 136 سال پرانا ہے۔ ایکسپلوزوز ایکٹ کی عمر 134 سال ہے۔ پاسپورٹ ایکٹ 98سال پرانا ہے۔ پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس کا قانون 157 سال پرانا ہے۔ ایکٹریسٹی ایکٹ کی عمر 108سال ہے۔ فیٹل ایکسیڈنٹس ایکٹ کو بنے 163 سال ہو گئے ہیں۔ جنرل کلاز ایکٹ 121سال کا ہو چکا ہے۔ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 128سال پرانا ہے۔ لینڈ ایکوی زیشن ایکٹ کی عمر 124سال ہے۔ میجورٹی ایکٹ 143 سال پرانا ہے۔ لمیٹیشن ایکٹ کو بنے110سال ہو چکے ہیں۔ نگوشییبل انسٹرومنٹ ایکٹ کی عمر 137سال ہے۔ اوتھ ایکٹ 145سال کا ہو چکا ہے۔ پارٹیشن ایکٹ کو 125 سال ہو چکے۔ پارٹنرشپ ایکٹ86سال پرانا ہے۔ پاور آف اٹارنی ایکٹ 136 سال کا ہو چکاہے۔ پنجاب لاز ایکٹ کی عمر 146سال ہے۔ پنجاب ٹیننسی ایکٹ 131سال پرانا ہے۔ رجسٹریشن ایکٹ 110سال پرانا ہے۔ ریونیو ریکوری ایکٹ کو 128 سال ہو چکے ہیں۔ صدیوں پرانے قوانین کے ذریعے ہم وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچ قریبا 400 لاکھ ہے لیکن وہاں کبھی کسی نے ان قوانین میں جدت لانے اور نئی قانون سازی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ شاید وہ اسے تبدیل کرنا ہی نہیں چاہتے۔ انہیں باوقار عوام کی نہیں، سہمی اور ڈری ہوئی رعایا کی ضرورت ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جس ڈی چوک پر مہینوں ہمیں ابرارلحق صاحب بتاتے رہے کہ کپتان خان کے جلسے میں ان کا نچنے نوں بہت جی کردا ہے اسی ڈی چوک پر خواتین اساتذہ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ مطالبات لے کر آئیں تو اول ان پر سردی کے اس موسم میں واٹر کینن سے پانی پھینکا گیا اور پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ خواتین اساتذہ نے رات حوالات میں گزاری۔
جسٹس رستم کیانی پھر یاد آگئے۔ ایک تقریب میں جسٹس صاحب، صدر ایوب خان اور نواب آف کالاباغ شریک تھے۔ جسٹس صاحب عام شرکاء میں بیٹھے تھے لیکن انہیں خطاب کی دعوت دے دی گئی۔ وہ سٹیج پر آئے اور کہا: "سبز باغ تو آپ کو سب نے دکھائے، ابھی میری تقریر کے بعد نواب صاحب آپ کو کالا باغ دکھائیں گے"۔ تو اے اہل وطن، کچھ آنسو بچا کر رکھیے ہمارے نواب صاحب نے ابھی چار سال ہمیں مزید تبدیلی دکھانی ہے۔