Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sehuniat Aur General Assembly

Sehuniat Aur General Assembly

صہیونیت کے بارے میں اس وقت قریب قریب پوری دنیا کے عام لوگ جس طرح سوچ رہے ہیں، ایک وقت تھا اسی سوچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی زبان دی تھی۔ آج بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے صہیونیت کو نسل پرست اور نسلی امتیاز کا شکار قرار دے رکھا ہے۔ دنیا کی یہ واحد ریاست ہے، جو اس بد ترین نسل پرست شاونزم کا شکار ہے۔ اس فسطائیت کو اقوام عالم نے سنجیدگی سے نہ لیا تو آج یہ مشرق وسطی کے لیے خطرہ ہے کل کو یہ عالمی امن کے لیے بھی خطر بنے گا۔

جس سفاکی سے اسرائیل نے غزہ میں قتل عام کیا، حیرت ہوتی ہے کیا کوئی ریاست بھی اس رویے کا مظاہر کر سکتی ہے۔ فلسطینیوں کو انسان نما جانور کہا گیا اور ان پر ایٹم بم مارنے کی بات اسرائیلی کابینہ کے اراکین نے کی۔ اسرائیل کے عام لوگوں کے ٹویٹر اکاونٹ پر جائیں تو نفرت وحشت اور درندگی اپنے عروج پر ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل ختم کر دی جائے ا ور ان کے وجود سے دنیا کو پاک کر دیا جائے۔ یہ سب کچھ اس زمانے میں ہمارے سامنے ہو رہا ہے جو انسانی حقوق کا زمانہ کہلاتا ہے۔ آدمی سوچتا ہے کہ کیا حقوق انسانی کے اس دور میں کسی ریاست کے ہاتھوں اس طرح انسانی حقوق پامال ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلیں تو جو پہلا پڑاؤ آتا ہے، وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3379 ہے۔ یہ قرارداد 10 نومبر 1975 کو 35 کے مقابلے میں 72 ووٹوں سے منظور ہوئی اور اس میں کہا گیا کہ:

The General Assembly، determines that Zionism is a form of racism and racial discrimination.

(جنرل اسمبلی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ صہیونیت نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک شکل ہے)جنرل اسمبلی کی یہ قرارداد خلا میں منظور نہیں ہوئی نہ ہی یہ کوئی اچانک فیصلہ تھا۔ اس سے پہلے کافی کچھ ہو چکا تھا۔

1۔ جنرل اسمبلی خود 2 سال پہلے، یعنی 1973 میں، اپنی قرارداد نمبر 3151 میں صہیونیت کی نسل پرستی کی مذمت کر چکی تھی۔

2۔ جولائی 1975 میں میکسیکو اعلامیے میں یہ کہا جا چکا تھا کہ کالونیلزم، نیو کالونیلزم، غیر ملکی قبضے، اور صہیونیت کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی تعاون ضروری ہو چکا ہے۔

3۔ یکم اگست 1975 کو کوالالمپور میں آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی کے سربراہان کی کانفرنس میں یہ اعلامیہ جاری ہو چکا تھا کہ مقبوضہ فلسطین میں قابض اسرائیل کی نسل پرست حکومت بنی نوع انسان کی آزادی کو کچل رہی ہے۔

4۔ غیر وابستہ ممالک کے وزرائے خارجہ کانفرنس نے 30 اگست 1975 کو اعلامیہ جاری کیا جس میں صہیونیت کو دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی۔

ڈیڑھ عشرے بعد، 1991 میں جب میدڈرڈ کانفرنس کا انعقاد ہونے لگا اور فسلطین اور اسرائیل کے درمیان معاملات کے تصفیے کی کوششیں شروع ہوئیں تو اسرائیل نے یہ شرط رکھی کہ جنرل اسمبلی یہ قرارداد واپس لے جس میں صہیونیت کو نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک شکل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ امریکی کاوشوں سے یہ قرارداد واپس لے لی گئی۔ اس وقت فلسطینیوں اور عربوں کی جانب سے اس کی مزاحمت نہیں کی گئی کیو ں کہ سبھی سوچ رہے تھے کہ شاید اس طرح امن قائم ہو رہا ہے تو ہونے دیا جائے۔

جنرل اسمبلی نے تو قرارداد واپس لے لی لیکن اس سے ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کسی دن اقوام متحددہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو تقسیم کرکے یہاں یہودی ریاست اسرائیل قائم کرنے والی اپنی قرارداد 181 بھی واپس لے لی تو اس کے کیا نتائج ہوں گے اور اسرائیل کہاں کھڑا ہوگا؟

جنرل اسمبلی نے تو قرارداد واپس لے لی لیکن میکسیکو اعلامیہ سے لے کر غیر وابستہ ممالک کے اعلامیے تک اور افریقن وزرائے خارجہ کے اعلامیے سے او آئی سی تک اس بات پر اتفاق ہی پایا جاتا ہے۔

اسرائیل کی قیادت پہلے دن سے جن لوگوں کے ہاتھ میں رہی وہ دہشت گرد صہیونی تنظیموں سے وابستہ تھے۔ ان ہی صہیونی تنظیموں نے اسرائیل کے معاملات سنبھالے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم مناکن بیگیم دہشت گرد تنظیم ارگون کے بانیوں میں سے تھے، اس تنظیم کو 1946 میں اینگلو امیرکن کمیٹی آف انکوائری نے بھی دہشت گرد قرار دیا تھا۔

دیر یاسین میں فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد آئن سٹائن سمیت 27 یہودی دانش وروں کا ایک خط نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا، جس میں مسلمانوں کے اس قتل عام کی شدید االفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مناکن بیگیم کا دہشت گرد اور فاشسٹ قرار دیا گیا۔ خط ہی کے مندرجات سے پتا چلتا ہے کہ ا س وقت کے یہودی عمائدین نے اردن کے شاہ عبد اللہ کو معذرت کا ایک ٹیلیگرام بھی بھیجا تھا۔ اسرائیلی اتنا سفاک کیوں ہے اور اس کے جنگی جرائم کی فکری بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ محض ایک ریاست کا انتظامی وحشی پن ہے یا اس کے پیچھے کوئی فکر بھی موجود ہے۔

اسرائیل شحاک کی کتاب Jewish History، Jewish Religion: The Weight of Three Thousand Years میں اس سوال کا جواب موجود ہے۔ وہ ہبریو یونیورسٹی آف یروشلم کے پروفیسر تھے۔ یہ ان یہودیوں میں شامل تھے جو ہولوکاسٹ میں بچ گئے اور فلسطین لا کر آباد کر دیے گئے۔ اس کتاب کا دیباچہ ایڈورڈ سعید نے لکھا تھا جن کا اپنا تعلق فلسطین سے تھا۔ اسرائیل شحاک کی یہ ساری کتاب ہی توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے تاہم سر دست میں اس کے صرف دو اقتباسات یہاں لکھ رہا ہوں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ہم یہودی بچوں کو یہ پڑھاتے ہیں کہ جب کبھی یہودی قبرستان کے پاس سے گزرو تو مرحومین کے لیے اچھے کلمات ادا کرو لیکن اگر تم کسی ایسے قبرستان کے پاس سے گزرو جو یہودی نہ ہو (مسلمان ہو) تو اچھے کلمات ادا نہ کرو بلکہ مرنے والوں کو ماں کی گالی دے کر گزرو۔

اسرائیل شحاک اسرائیل فوج کے سنٹرل ریجن کمانڈ کی جانب سے شائع ہونے والے پمفلٹ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں ملٹری کمانڈ کی طرف سے مغربی کنارے میں اپنی افواج کو ہدایات جا ری کی گئی تھیں۔ یہ حکم نامہ پڑھنے کی چیز ہے۔ اس میں لکھا ہے:

"جب ہماری افواج جنگ، تعاقب یا حملے کے دوران سویلینز کو سامنے پائیں اور یہ بات یقینی نہ ہو کہ یہ سویلین ہماری افواج کو نقصان پہنچانے کی کوئی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں، تب بھی ہلاکہ کے اصول کے تحت ان سویلینز کا قتل کیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں لازمی طور پر قتل کیا جانا چاہیے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں کبھی بھی ایک عرب پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک وہ ایک مہذب شخص ہونے کا تاثر دے تب بھی اسے قتل کر دیا جائے۔ جنگ کے دوران ہماری افواج کو اجازت ہے بلکہ صرف اجازت ہی نہیں انہیں یہ حکم بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اچھے شہریوں کو بھی قتل کر دیں۔ یعنی ان شہریوں کو بھی جو بظاہر اچھے ہوں"۔ اسرائیل آج بھی وہی کر رہا ہے جو اس حکم نامے میں لکھا تھا۔