Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tehreek e Insaf, Baseerat Ya Lobbying?

Tehreek e Insaf, Baseerat Ya Lobbying?

کیا وجہ ہے کہ تمام شرائط پوری کر دینے کے باجود آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہا؟ یہ اچانک آئی ایم ایف پاکستان کے آئین کا محافظ کیسے بن گیا کہ اس نے پاکستان سے معاملات آئین کے مطابق چلانے اور انتخابات کا مطالبہ کر دیا؟ بے شک معاملات آئین کے مطابق ہی چلنے چاہئیں لیکن اس سے آئی ایم ایف کا کیا تعلق؟ کیا آئی ایم ایف یہ شرط دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ بھی رکھتا ہے یا اس کا ہدف صرف پاکستان ہے؟ نیز یہ کہ خود پاکستان میں آئین کی حرمت کا پرچم آئی ایم ایف نے اس سے پہلے بھی کبھی اٹھایا یا آئی ایم ایف کو اچانک ہی یہ خیال آ گیا کہ آئین تیرے جانثار بے شمار بے شمار؟

پاکستان کے معاملات آئین ہی کے مطابق طے ہونے چاہئیں لیکن نوے دن میں انتخابات کے معاملے پر پاکستان کے آئین و قانون اور انتخابی عمل سے متصل معاملات کچھ ا ور بھی ہیں۔ آئین کے کسی ایک پہلو کو دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے اور اس میں کسی بھی آئینی تعبیر کے درست یا غلط ہونے کا امکان موجود ہے۔ سوال فی الوقت یہ ہے کہ کیا آئی ایم ایف کا ڈھانچہ اور اس کا ضابطہ کار مالی معاملات سے متعلق ہے یا آئینی معاملات کا احاطہ بھی کرتا ہے؟

یعنی آئی ایم ایف نے آج تک کتنے ممالک سے معاملہ یہ کہہ کر التوا میں ڈال دیا کہ وہاں آئین پر مکمل عمل نہیں ہو رہا یا وہاں حقیقی جمہوریت نہیں ہے؟ یہ سارے میٹھے میٹھے اور شیریں سے اقوال زریں آئی ایم ایف کو اب ہی کیوں یاد آ رہے ہیں؟ یہ بریڈلے شرمن سے زلمے خلیل زاد تک اور یہ امریکی اراکین کانگریس سے برطانوی پارلیمنٹیرین تک، سبھی دکھی فلموں کے اداس ہیرو کیوں بنے پھرتے ہیں؟ یہ قصہ کیا ہے؟ یہ کہانی کیا ہے؟

کل تک عمران خان ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف مہم کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور آج وہی عمران خان انہی غیر ملکی قوتوں کے آگے اپنے اداروں پر فرد جرم عائد کرکے ان سے مداخلت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کبھی وہ امریکی اراکین کانگریس کے سامنے اپنا مقدمہ رکھتے ہیں، کبھی وہ برطانوی اراکین پارلیمان کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں، کبھی وہ غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہیں اور نام لے لے کر ریاستی اداروں پر فرد جرم عائد کرتے ہیں۔ کیا ان کا خیال یہ ہے کہ جو معاملات ان کی غلطیوں سے خراب ہوئے ہیں، وہ غیر ملکی دبائو سے ٹھیک ہو جائیں گے؟

ایک ریاست، مالی اور معاشی مشکلات میں کتنی ہی کیوں نہ گھری ہو، اس کا بازو مروڑ کر اس سے بات نہیں منوائی جا سکتی۔ مسائل بڑے گھمبیر ہوں گے لیکن پاکستان بنانا ری پبلک نہیں کہ بیرون ملک لابنگ اور امریکی انتظامیہ کے زلمے خلیل زاد جیسے کرداروں کے ٹویٹس کے دبائو میں آ کر بلیک میلنگ کا شکار ہو جائے گی۔

سیاست بند گلی سے راستے نکالنے کا نام ہے۔ یہ ہمہ وقت جارحیت کا نام نہیں۔ سیاست اور عسکریت میں یہی فرق ہے۔ عمرا ن خان کی افتاد طبع نے تحریک انصاف کو درمیان کی چیز بنا دیا ہے۔ وہ نہ معروف معنوں میں سیاسی جماعت رہی ہے نہ ہی وہ ایک عسکری گروہ ہے۔ اس کے ہاتھوں میں بندوق نہیں ہے لیکن اس کا طرز عمل سیاسی نہیں ہے۔ اپنی اس عوامی تائید کو حکمت کے ساتھ سیاسی عمل میں بروئے کار لانا عمران خان کا اصل چیلنج تھا اور ہے۔ افسوس وہ اب تک اس میں ناکام ہیں۔

9 مئی کو جو ہوا، یہ سیاست نہیں تھی، یہ احتجاج بھی نہیں تھا۔ جس طرح سے ہوا، یہ وقتی رد عمل بھی نہیں تھا۔ حقائق سامنے آ جائیں گے تو حقیقت کھل جائے گی کہ کون کیا کر رہا تھا اور اہداف اور مقاصد کیا تھے۔ تاہم جب عمران خان کو سپریم کورٹ نے رہا کیا تو ایک بالغ نظر سیاست دان کے طور پر ان کے سامنے تمام امکانات موجود تھے۔ وہ حکمت سے معاملہ کرتے تو بات اس وقت بھی سنبھالی جا سکتی تھی۔

فرض کریں، عمران رہائی کے بعد سیدھا شہداء کی یادگار پر جاتے اور پھول رکھ آتے تو کیا ماحول بنتا۔ شہداء کی یاد گار پر کھڑے ہو کر وہ اس عمل کی مذمت کر دیتے تو ماحول کتنا مختلف ہوتا۔ یوم تکریم شہداء پر ایک ٹویٹ ہی کر دیتے تو ماحول یہ نہ رہتا جو آج ہے۔ لیکن ان کا رویہ اس سے یکسر مختلف تھا۔

عدالت نے انہیں راستہ دیتے ہوئے معذرت کا کہا تو انہوں نے جواب دیا مجھے کیا معلوم کیا ہوا، ان سے فوجی تنصیبات پر حملوں کا سوال ہوا تو جواب ملا ؛ جب مجھے گرفتار فوج یعنی رینجرز نے کیا تھا توپھر احتجاج کہاں ہوتا؟ کوئی کسر اگر رہ گئی تھی تو انہوں نے للکار کر پورا کر دی کہ دوبارہ مجھے گرفتار کیا گیا تو دوبارہ ایسا ہی احتجاج ہوگا۔ لاہور پہنچے اور نام لے لے کر پھر سے رجز پڑھنا شروع کر دیے۔

اقتدار میں تھے تو اپوزیشن چور ہے اس سے بات نہیں ہو سکتی۔ اقتدار سے الگ ہوئے تو سب غدار اور میر جعفر قرار پائے۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلسل غصہ اور ہیجان بھرا گیا اور تمام اداروں کو ولن بنا دیا گیا۔ بس ایک عمران خان صاحب ہیں جو اچھے ہیں یا پھر وہ جو ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے علاوہ سب خائن، کرپٹ یا غدار ہیں۔ اب ریاست کے خلاف حقوق انسانی کا مقدمہ قائم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سیاست اس رویے کا نام نہیں ہے۔ سیاست تصادم کا نہیں، اس سے گریز کا نام ہے۔

نوجوان بڑے رومان لے کر تحریک انصاف سے جڑے تھے۔ یہ سب اشتعال انگیز مزاج کے نہ تھے، بہت اچھے لوگ بھی تھے اور ہیں۔ البتہ عمران خان کی حکمت عملی یہی تھی کہ وابستگان کو انگارا بنا دیا جائے۔ اشتعال، ہیجان اور نفرت پر استوار سیاست کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ یہی نفرت اور جنون انہیں ہانکتا پھرتا ہے اور یہ آسان ترین طرز سیاست ہے۔

سیاست نہ ہمہ وقت نفرت سے ہو سکتی ہے نہ ہی غیر ملکی لابنگ سے۔ کسی حد تک یہ چیزیں کام آ سکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ آپ کی بصیرت اور سیاسی حکمت عملی کرتی ہے۔ بصیرت کا یہ عالم ہے کہ خود ہی قومی اسمبلی سے نکل گئے اور اب واپسی کی منتیں کرتے پھرتے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے میں حکومت تھی خود ختم کر دی، جن کے مشورے پر کی وہ پارٹی سے رابطہ ختم کرکے جہلم واپس جا چکے۔ اپنے نوجوانوں کو ریاست سے الجھا دیا۔ خود عمران خان صاحب پر ملٹری کورٹ میں مقدمے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔

تحریک انصاف میں کوئی سوچنے کو تیار ہے کہ اس سارے سفر میں کیا کھویا کیا پایا۔ تحریک انصاف میں اگر کوئی عمران خان کا خیر خواہ ہے تو اسے اپنے کپتان کو بتانا چاہیے معاملات غیر ملکی لابنگ سے نہیں، قیادت کی بصیرت سے حل ہو سکتے ہیں، اور اب بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ بصیرت کہاں ہے؟