نواز شریف کا نام کس وقت ای سی ایل سے نکلتا ہے، اس پر اہل ہنر مضامین باندھ رہے ہیں۔ کہیں قانون دوستی کی آبشاریں پھوٹ رہی ہیں اور پیچیدہ قانونی نکتوں کے جواہرات دریافت ہو رہے ہیں کہ نہیں جی ہم انہیں بانڈز لیے بغیر تو نہیں جانے دیں گے تو کہیں انسان دوستی کے چشمے بہے چلے جارہے ہیں اور حشرات الارض کو جنہیں تفنن طبع کی مستی میں گاہے عوام کہا جاتا ہے، یہ بتایا جا رہا ہے کہ عزت مآب وزیر اعظم نے انسانی ہمدردی کے عظیم اظہار کے طور پر آئوٹ آف دی باکس حل نکالتے ہوئے میاں صاحب کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس ساری ترک تازی اور نکتہ آفرینی میں میاں صاحب کی صحت کے لیے دعاگو میرے جیسا طالب علم بیٹھا یہ سوچ رہا ہے کہ جیل میں پڑے ان قیدیوں کا مستقبل کیا ہے جو بیمار ہیں اور جیل کی سیلن زدہ کوٹھڑیوں میں پڑے ویران آنکھوں سے موت کا انتظار کر رہے ہیں؟
بطور معاشرہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے حصے کے آقائوں کی غلامی کے طوق گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں۔ ہماری وفاداریاں بھی اپنے حصے کے شاہی خاندانوں کے لیے وقف ہیں اور ہمارے جھگڑے بھی انہی کی مجاوری میں ہوتے ہیں۔ ہمارے چہروں پر روشنی آتی ہے تو اشرافیہ کے حسن مستعار سے اور ہم آہیں بھرتے ہیں تو انہی کے غمِ نارسائی میں۔ ہم عوام نہیں، رعایا ہیں۔ عوام اپنا حق مانگتی ہے لیکن رعایا کے لبوں پر ایک ہی دعا بن کے تمنا آتی ہے کہ ظل سبحانی، شاہ معظم کا اقبال بلند ہو۔ رعایا کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے بچے کتوں کا کاٹنے سے ویکسین کی عدم دستیابی سے مرتے ہیں یا ناقص ادیات سے، انہیں صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ شاہ ِ جہانگیر جہاں بخت جہاندار کا اقبال بلند رہے۔
رعایا "خس کم جہاں پاک" کی عملی تصویر ہے۔ دو سال میں صرف پنجاب کی جیلوں میں دل جگر اور دیگر امراض کی وجہ سے 145 قیدی جاں بحق ہوجائیں تو سینہِ چرخ میں ایک اختر بھی دل نہیں بنتا اور شاہی خاندان کا کوئی فرد جیل چلا جائے تو ہستیِ نا پائیدار میں ہنگامہ ِ قیامت پیدا ہو جاتا ہے۔ شاہی خاندان معزولی میں بھی روئے تابناک پر قطرہ ِ عرق ِ گلاب ہے۔ وہ کبھی جیل میں پیراہن گُل کی مانند اتر جائے تو درودیوار کی خستگی کے غم میں اہل شکم داغ ِ غلامی سے آلودہ دامن پر نوحے لکھتے ہیں۔ لیکن رعایا کا عالم یہ ہے کہ راولپنڈی میں دل اور جگر کے امراض سے 27 قیدی مر جائیں تو بزمِ طرب میں کوئی پل بھر کو بد مزہ بھی نہیں ہوتا۔
رعایا کواس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ تین ہزار چار سو ننانوے خواتین جیلوں میں کس حال میں رنج ِ حیات کھینچ رہی ہیں اور ان میں سے کتنی ہیں جن سے جیلوں میں جنسی بیگار لی جاتی ہے، حاملہ خواتین کے لیے بھی الگ سے کوئی کمرہ نہیں ہوتا نہ ہی ضروری سہولیات اورادویات دستیاب ہوتی ہیں۔ جیلوں میں کوئی گائنا کالوجسٹ نہیں ہوتی جو ان کو دیکھ سکے، انہیں کوئی پرواہ نہیں، وہ حقوق نسواں کی گور پر کھڑے ہو کر اس وقت سر میں خاک ڈالتے ہیں جب کسی شاہی خاندان کی کوئی عالی مرتبت شہزادی قید کر دی جاتی ہے۔
اہلِ اقتدار کی خواب گاہوں سے آبِ حیات کے چشمے بہتے ہیں اور رعایا کے دامن سے ہر دم فنا لپٹی رہتی ہے۔ شاہی خاندان کی چشمِ سحر آفریں پر کبھی خزاں نہیں آتی اور رعایا کی صحراء آنکھوں میں کبھی بادل نہیں برستا۔ یہ جیل جائیں تو گویا دلہا میاں کی بارات اتر آتی ہے اور حجلہ عروسی کو ساری نزاکتوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ سیلن نہ ہو، واش روم اچھا ہو، دیواروں پر رنگ و نور تازہ تازہ بکھیرا گیا ہو اور موسم کی شدت سے یہ گوشہ عافیت محفوظ ہو۔ لیکن رعایا کو جیل جانا پڑے تو ناران سے آگے اس جادوئی بستی بیسل کے چرواہے مصطفی کے باڑے کے جانوروں کی طرح انہیں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ دس قیدیوں کے کمرے میں چالیس قیدی۔ اڈیالہ جیل انیس سو قیدیوں کے لیے بنی تھی وہاں پانچ ہزار سے زیادہ قیدی ہیں۔ مجموعی طور پر ہماری جیلوں میں چھیالیس ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے اور چوراسی ہزار قیدی موجود ہیں۔ کسی ایک کو متعدی بیماری لاحق ہو جائے تب بھی اسے الگ رکھنے کی گنجائش نہیں۔
شاہی خاندان کا کوئی چشم و چراغ جیل جائے تو خدام ادب کورنش بجا لاتے ہیں۔ ان کی ناسازئی طبع کے امکان کے پیش نظر وہاں خصوصی میڈیکل یونٹ قائم کر دیا جاتا ہے۔ جہاں ڈاکٹر چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتے ہیں۔ لیکن رعایا کے ساتھ حسن ِ سلوک کا عالم یہ ہے کہ پنجاب کی 32 میں سے 22 جیلوں میں ای سی جی تک کی سہولت نہیں ہے اور ایکس رے کی سہولت بھی صرف 4 ہسپتالوں میں موجودہے۔ حالانکہ پرزن ایکٹ کی دفعہ 39 کے تحت ہر جیل میں ایک ہسپتال ہونا چاہیے۔
نامرادی کی رسم بھلے میر سے ہو، نارسائی کا جو خار ہمارے سینے میں آ گھسا ہے، میر صاحب کو اس کے آزار کی کیا خبر۔ نصف سے زیادہ جیلوں میں پنکھے تک نہیں اور چالیس درجہ حرارت میں قیدیوں کو صرف کراس وینٹی لیشن پر گزارا کرنا ہوتا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ گیارہ جیلوں میں قیدیوں کو ایک دوسرے کے سامنے رفع حاجت کرنا پڑتی ہے۔ کپڑے تان کر وہ پردہ قائم کرتے ہیں۔ کنج تنہائی میں انہیں کوئی دلاسہ دینے بھی نہیں آتا۔ لیکن شاہی خاندان کا کوئی مہرِ جہانتاب تشریف لے آئے تو الگ سے کمرہ تیار کر کے اس میں ائر کنڈینشنر نصب کر دیا جاتا ہے کہ غنچہ فردوس بریں میں بت ِ ناز کو کوئی ناخوشگوار لمحہ چھو نہ پائے۔
نواز شریف صاحب کو اللہ صحت دے، جہاں چاہیں علاج کرائیں۔ سوال صرف اتنا ہے جیلوں میں پڑے ان قیدیوں کا مستقبل کیا ہے جو بیمار ہیں اور جیل کی سیلن زدہ کوٹھڑیوں میں پڑے ویران آنکھوں سے موت کا انتظار کر رہے ہیں؟کیا وہ اجڑے کنووں کی ریت ہیں؟
استاد ذوق ہوتے تو عمران خان کا قصیدہ پڑھتے : واہ واہ کیا معتدل ہے باغِ عالم کی ہوا۔