Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Intezar Farmain

Intezar Farmain

آج میں آپ سے ایک عجیب و غریب تجربہ شیئر کرنے لگا ہوں، اس تجربے نے مجھے حیران کر دیا ہے، آپ ابھی کاغذ قلم نہ پکڑیں، دعا کریں۔ ایک ہفتے کے بعد اگر میں اس موضوع پر دوسرا کالم لکھوں تو آپ کو کاغذ قلم پکڑنے کی ضرورت پڑے گی اور آپ ایک مجرب نسخہ اپنے ان دوستوں کے لئے لکھیں گے جو گھٹنوں کے درد کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔

مجھے تقریباً دو تین برس سے گھٹنوں میں شدید درد ہوتا تھا۔ ایکسرے وغیرہ کروائے تو پتا چلا کہ سرجری سے مشینی گھٹنے لگوائے بغیر چارہ نہیں، میں نے بہت سے آرتھو پیڈک سرجنز سے رابطہ کیا کہ شاید سرجری کے علاوہ کوئی اور راستہ نکل آئے۔ ایک ڈاکٹر نے کہا، آپ فزیو تھراپی کروا لیا کریں، یہ ایک گھنٹے کی ایکسر سائز تھی جس کے لئے روزانہ فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھیں لیکن میرے لئے روزانہ کی یہ پابندی ممکن نہ تھی۔ ایک سرجن نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو بیٹھے بیٹھے گھٹنوں میں درد تو نہیں ہوتا، میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس نے پوچھا، آپ زیادہ سے زیادہ کتنا چل لیتے ہیں، میں نے کہا:یہی کوئی سو پچاس قدم۔ اس کا مشورہ تھا کہ فی الحال آپ سرجری نہ کروائیں، یہ ادویات استعمال کریں۔ ایک ڈاکٹر نے دونوں گھٹنوں میں اسٹیرائڈ کا انجکشن لگا دیا اور کہا کہ اس سے آپ سال ڈیڑھ سال کے لئے سہولت سے چل پھر سکیں گے اور ممکن ہے یہ بالکل ہی کارگر ثابت نہ ہوں چنانچہ ان کی دوسری بات صحیح نکلی یعنی مجھے ان انجکشنز سے "ٹکے کا فائدہ" نہیں ہوا۔

ان چند برسوں کے دوران میں نے کئی دفعہ گھٹنے بدلوانے کا فیصلہ بھی کیا کہ میں خود کو معذور سا سمجھنے لگا تھا، سیڑھیاں چڑھنا میرے لئے ایک عذاب سے کم نہ تھا چنانچہ میں ان تقریبات میں شرکت ہی نہیں کرتا تھا جہاں سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہوں، اسی طرح میں نے گاڑی میں وہیل چیئر رکھنا شروع کر دی تھی کہ جہاں سو پچاس قدموں سے زیادہ چلنے کا امکان ہو، وہاں میں وہیل چیئر استعمال کرتا تھا مگر عموماً چہرے کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپنے کی کوشش کرتا تھا کہ مجھے سخت شرمندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ان عوامل کی وجہ سے میں نے سرجری کے بارے میں سوچا تھا، اس حوالے سے مختلف دوستوں سے معلومات حاصل کیں جو خود یا انکے کوئی عزیز اس تجربے سے گزرے ہوں۔ اکثریت کے بارے میں پتا چلا کہ اب ان کی زندگی بہت آرام دہ ہو گئی ہے مگر وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ آپریشن کے بعد تین مہینے جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے وہ ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ کچھ نے تو بہت زیادہ ڈرا دیا، ایک نے بتایا کہ اس کی خالہ نے لندن سے سرجری کروائی اور اب وہ مستقل چارپائی پر پڑی ہیں اور یوں کبھی ارادے باندھتا اور کبھی توڑ دیتا تھا۔

میرے قارئین میں سے کچھ لوگ بیتاب ہو رہے ہوں گے کہ میں اب جلدی سے پٹاری میں سے سانپ نکالوں یعنی مجمع لگا لیا ہے، اب کام کی بات بھی بتائوں۔ ابھی بتاتا ہوں مگر اس سے پہلے یہ کہ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں سے، مبالغے کی معافی چاہتا ہوں، دو چار کروڑ پاکستانیوں نے مجھے گھٹنوں کی درد کے دیسی نسخے بتائے۔ میں نے دو چار استعمال بھی کئے مگر مجھے کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بہرحال تقریباً ایک ہفتہ پہلے میں پنجاب کے معروف شاعر ابرار ندیم کے گھر گیا تو وہاں ان کی اہلیہ اور بچوں کے علاوہ ان کی والدہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہیں میرے مسئلے کا پتا چلا تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود ایک عرصے سے اس تکلیف سے دوچار تھیں مگر انہیں ایک دیسی نسخے سے بہت فائدہ ہوا، یہ بھی بتایا کہ وہ اس نسخے کے علاوہ ایک پین کلر بھی استعمال کرتی تھیں اور ابھی تک کر رہی ہیں۔ اب ان کے لئے چلنا پھرنا بلکہ سیڑھیاں چڑھنا بھی کوئی مشکل نہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ اصل کمال پین کلر ہی کا ہوگا، جس کا مستقل استعمال گردوں کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے انہیں کہا کہ اللہ کرے آپ اسی طرح سہولت سے زندگی گزارتی رہیں۔ وہ اٹھ کر کسی کام سے دوسرے کمرے میں گئیں تو ابرار ندیم کی تہجد گزار اہلیہ نے مجھے کچھ قرآنی آیات اور وظیفے بھی بتائے جن کے ورد سے میرے درد کا مداوا ہو سکتا تھا۔ اتنے میں ابرار ندیم کی والدہ دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئیں، ان کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی، یہ وہی معجون تھی جو وہ استعمال کرتی چلی آئی تھیں، وہ انہوں نے مجھے دی اور کہا کہ چائے والے چمچ کا ایک چوتھائی حصہ صبح نہار منہ لے لیا کریں، اللہ کرم کرے گا۔ اب چونکہ بنی بنائی چیز مل گئی تھی چنانچہ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس کا استعمال شروع کر دیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اگلے ہی دن درد ورد سب غائب ہو گیا اور میں نے گھر میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ ابھی میں نے سیڑھیاں چڑھنے کا رسک نہیں لیا مگر مجھے جو ریلیف ملا وہ میرے لئے حیرت انگیز تھا۔ اور ہاں میں نے وہ پین کلر بھی استعمال نہیں کی تھی کہ میں سوچتا اصل کمال تو اس گولی کا ہے۔

جی ہاں اب آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ معجون کن چیزوں کا مرکب تھی تو ابھی ہرگز نہیں بتائوں گا۔ اگر ایک ہفتہ مزید میں اسی طرح ٹھیک ٹھاک رہا تو احباب کے استفادہ کے لئے کالم میں درج کر دوں گا، اس وقت تک انتظار فرمائیں۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.