خدا کا شکر ہے کہ لوگ اب کسی غرض کہ بغیر ہی ایک دوسرے سے ملنے لگے ہیں۔ بغیر غرض کے ملاقات کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ بہن بھائی، عزیز و اقارب اور دوست احباب تو ایک دوسرے سے ملتے ہی ہیں بالکل اجنبی لوگ بھی صرف فرطِ محبت سے بغیر کوئی فائدہ ذہن میں رکھے میل ملاقات کرنے لگے ہیں اور نفسا نفسی کے موجودہ دور میں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
چند روز قبل لاہور سے تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک قصبے سے ایک صاحب کا فون آیا کہ آپ سے ملاقات کے لئے لاہور آنا چاہتا ہوں، آپ بتائیں کون سے دن آپ مل سکتے ہیں؟ میں نے کہا جس دن آپ لاہور پہنچ کر فون کریں گے امید ہے کہ اس دن ہم مل سکیں گے۔ اگر میری کوئی مجبوری ہوئی تو اس سے اگلے روز تو ان شاءاللہ یقیناً ملاقات ہو گی تاہم اگر آپ اپنی آمد کا مقصد بتا سکیں تو میرے لئے آپ کو یہ بتانا آسان ہوگا کہ اس مقصد کےلئے مجھ سے ملنا آپ کے لئے مفید ہے یا نہیں تاکہ آپ اتنا طویل سفر طے کرنے کی زحمت سے بچ سکیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا واللہ محض آپ کی زیارت مقصود ہے، اس کے علاوہ کوئی غرض نہیں میں نے کہا پھر جب چاہیں تشریف لائیں۔
تین چار روز کے بعد وہ صاحب ملاقات کے لئے میرے دفتر تشریف لائے اور چائے کے کپ پر کافی دیر تک ملک و قوم کے معاملات پر نہایت درد مندانہ گفتگو کرتے رہے، خصوصاً ناجائز مراعات پر ان کا ردعمل بہت شدید تھا۔ انہیں میرے پاس بیٹھے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا تو میں نے اپنی گھڑی دیکھی کیونکہ مجھے ایک میٹنگ میں جانا تھا، وہ سمجھ گئے "غالباً آپ نے کہیں اور جانا ہے" اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب میں انہیں دروازے پر الوداع کہہ رہا تھا وہ جاتے جاتے رُکے اور کہا میری آمد کا مقصد تو محض آپ کی زیارت تھا لیکن میں اپنے علاقے میں ایک اسکول کھولنا چاہتا ہوں اگر آپ حکومت سے سفارش کرکے دوچار ایکڑ زمین دلا دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ میں نے کہا میں بھی جانتا تھا کہ آپ مجھ سے صرف ملنے کے لئے آئے ہیں، اس کا بہت شکریہ لیکن حکومت سے میرے ایسے تعلقات نہیں ہیں کہ انہیں کوئی سفارش کر سکوں۔ بولے یہ آپ کیا فرما رہے ہیں، آپ کے تو صرف ایک فون کی دیر ہے۔ میں نے کہا برادرم جن صاحب کی طرف آپ کا اشارہ ہے انہیں فارغ کر دیا گیا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے میرا پکڑا ہوا ہاتھ بے دردی سے جھٹک دیا اور پائوں پٹختے ہوئے چلے گئے۔
اس طرح کے پرخلوص اور بے غرض لوگوں سے صرف میری ملاقات نہیں ہوتی، دوسرے بہت سے لوگ بھی اسی خلوص اور بے غرض افراد کی زدمیں آتے رہتے ہیں۔ میرے ایک دوست جو سماجی کاموں میں پیش پیش رہے ہیں ان کے گرد تو اس طرح کے افراد کا جمگٹھا لگا رہتا ہے۔ متذکرہ معاملے میں تو ان کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت سادہ لوح لوگ ہیں جو پہلی ملاقات میں حرف مدعالب پر لے آتے ہیں ورنہ ان کے پاس تو ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو ان کی ایک چھینک مارنے پر سات دن صرف عیادت کے لئے ان کے پاس آتے اور دعائے صحت فرماتے ہیں اور کہیں آٹھویں دن یونہی باتوں باتوں میں اپنے اس ہونہار صاحبزادے کا ذکر کرتے ہیں جسے پولیس نے اجرتی قاتل قرار دیا ہوا ہے اور آٹھ قتل اس کے کھاتے میں ڈالے ہوئے ہیں اور پھر یہ صاحب فرمائش کرتے ہیں کہ ذرا آئی جی کو فون کرکے پولیس والوں کی پتلون تو اتروا دیں۔
میرا ایک کالم نگار دوست بھی ایسے ہی بے غرض اور پیکر مہر و وفا لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے اس نوع کے قارئین کے خطوط سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ کتنا بڑا کالم نگار ہے۔ یہ بے غرض لوگ تین صفحے اس کی تعریف میں قلمبند کرتے ہیں اور پھر کہیں آخری جملے میں اپنی چھوٹی موٹی غرض سامنے لاتے ہیں اور غرض عموماً اس شخصیت کے حوالے سے ہوتی ہے جس کے مخیر ہونے یا جس کے فلاحی کاموں کا ذکر اس نے اپنے کسی کالم میں کیا ہوتا ہے۔ ان خطوں میں ایک لاکھ سے پچاس لاکھ روپے تک کی ضرورت بیان کی گئی ہوتی ہے جس کی سفارش اس کالم نگار دوست کے لئے ممکن نہیں ہوتی کہ ضرورت مندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان کے ضرورت مندوں کی کل رقم پاکستان کے مجموعی بجٹ سے زیادہ بن جاتی ہے۔
ان مثالوں سے میرے ایسے انسان کے دل کو بہت تقویت پہنچتی ہے۔ جو پے در پے واقعات کی روشنی میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ دنیا اخلاص سے خالی ہوتی جا رہی ہے اور لوگ بغیر غرض کے سلام کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے لیکن بہت سے دوستوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ دنیا غالباً ایسے ہی بے لوث افراد کے دم سے قائم ہے ورنہ کب کی تباہ ہو چکی ہوتی۔
پس نوشت:گزشتہ دنوں کالم نگار جاوید چوہدری نے اپنے دو کالموں میں چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال سے ملاقات کی روداد بیان کی تھی۔ یہ انٹرویو نہیں تھا صرف آن ریکارڈ باتوں کا ذکر تھا۔ جسٹس صاحب نے جو باتیں آف دی ریکارڈ کہیں جاوید چوہدری نے صحافتی اخلاقیات کے تقاضے کے تحت ان کا ذکر نہیں کیا۔ نیب ابھی تک تین چار بار ان کالموں کو انٹرویو قرار دے کر اور کبھی یہ کہے بغیر اس کے مندرجات کی تردید کر چکا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر تردید ایک دوسرے سے تقریباً مختلف ہوتی ہے۔ میری مودبانہ اور ہمدردانہ گزارش ہے کہ تردیدوں کا یہ سلسلہ بند کر دیں کہ یہ تردیدیں بھی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں!