لیگ اسپن کا کنگ چلا گیا۔ عبدالقادر جیسا سپر فٹ کرکٹر اچانک دنیا چھوڑ جائے تو اس کے چاہنے والوں کا دکھ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ لیگ اسپن، گگلی اور فلپر کا جادوگر دنیائے کرکٹ کے لیے استاد کا درجہ رکھتا تھا۔
آسٹریلیا کا کامیاب ترین لیگ اسپنر شین وارن پہلی بار پاکستان آتا ہے تو سب سے پہلے عبدالقادر کے آستانے پر حاضری دیتا ہے۔ یہ ایک ملاقات اس کے لیے اتنی مددگار ہوتی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا لیگ اسپنر بن جاتا ہے۔ شین وارن نے عبدالقادر کی زندگی میں بار ہا یہ اعتراف کیا کہ اس نے استاد سے بہت کچھ سیکھا۔ بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے بھی عبدالقادر کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔
کرکٹ کے مبصرین بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ اس نے لیگ اسپن بولنگ کو آرٹ بنا دیا۔ میاں میر کے دربار کے ساتھ بارہ دری گرائونڈ میں ابتدائی کرکٹ کھیلنے والا نوجوان ٹیسٹ کرکٹر بنا تو دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹر سے اسٹار بن گیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے نوجوان نے ون ڈے کرکٹ میں بھی اپنی دھاک بٹھائی۔
ون ڈے کرکٹ جو لیگ اسپنرز کے لیے شجرممنوع سمجھی جاتی تھی عبدالقادر کی جادوئی کارکردگی نے لیگ اسپنرز پر ون کرکٹ کی "ان دیکھی" پابندی ختم کرائی۔ وہ غالباً پہلا لیگ اسپنر تھا جس نے ون ڈے کرکٹ میں بھی اپنی افادیت ثابت کر دی۔ 1987 ء کے ورلڈ کپ کا ایک میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا، وہ میچ شائقین کو آج بھی یاد ہے جس میں جادوگر بولنگ میں کچھ نہ کر سکا تو اس نے اپنے بیٹ کی طاقت سے پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔
قومی ٹیم کے 9 کھلاڑی آئوٹ ہو چکے تھے اور جیت کے امکانات معدوم تھے۔ ویسٹ انڈین کپتان ویوین رچرڈز اپنی ٹیم کی یقینی فتح دیکھ رہے تھے۔ آخری اوور اسٹار ویسٹ انڈین بولر کورٹنی والش نے کرنا تھا اور جیت کے لیے 14 رنز درکار تھے۔ اس دور میں 14 رنز کی ضرورت ہو اور آخری وکٹ پر بنانے ہوں تو یہ تقریباً ناممکن کام تھا۔
عبدالقادر نے لیکن ایک چھکا اور ایک چوکا مار کر اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ وہ منظر ابھی تک آنکھوں کے سامنے ہے جب عبدالقادر کو لوگوں نے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور ویوین رچرڈز شدید مایوسی کے عالم میں گرائونڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔
اسپن کا وہ جادوگر میچ ووننگ بولر تھا۔ ٹیسٹ میچوں میں اس نے جو کارنامے انجام دیے اور پاکستان کی جیت میں جتنی بار اس کا ہاتھ رہا اس کی تفصیل بہت طویل ہے۔ مرحوم کے دوست عمران خان نے ٹھیک کہا ہے کہ عبدالقادر جتنا بڑا جینئس تھا اس کے ریکارڈ اتنے بڑے نہیں ہیں۔ اس دور میں فرنٹ فٹ پر بیٹسمین کا ایل بی ڈبلیو آئوٹ ہوتا تو اسپن کا جادوگر بھی شین وارن سے کم وکٹیں نہ لیتا۔
عبدالقادر حقیقی معنوں میں درویش آدمی تھا۔ سچا اور کھرا۔ اسے گول مول بات کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ دھرمپورہ لاہورکی گلیوں میں جوان ہونے والا یہ مرد درویش شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ عام سے گرائونڈ میں کھیلتے کھیلتے دنیا کے بہترین کرکٹ اسٹیڈیم میں بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچانے لگا مگر مجال ہے کہ اس کے لہجے میں کبھی تبدیلی آئی ہو۔ وہ پکا لاہوری اور اپنی زمین کے ساتھ جڑا ہوا انسان تھا۔ شہرت کی بلندیوں نے اس کا دماغ خراب کیا نہ اسٹارڈم نے اسے آپے سے باہر کیا۔
میں عبدالقادر سے دوستی کا دعویٰ نہیں کر سکتا لیکن بہت اچھی جان پہچان ضرور تھی۔ دفتر اور دفتر سے باہر، کبھی کسی فنکشن میں یا سرراہ کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بھی بات ہوئی سچی اور کھری بات ہوئی۔ اس سے پہلے کہ آپ اس اسٹار کی تعریف کریں وہ الٹا آپ کی تعریفوں کے پل باندھ دیا کرتا تھا۔ اس کے اندر عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دکھاوا اور بناوٹ قریب سے نہیں گزری تھی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ زیادہ بڑا کرکٹر تھا یا انسان زیادہ بڑا تھا۔
دنیا نے ایک سیریز میں پرفارم کرنے والے کرکٹروں کے دماغ خراب ہوتے دیکھے ہیں، ایک وہ تھا کہ اتنی کامیابیاں سمیٹنے کے بعد بھی عاجزی کا مجسمہ بنا رہا۔ کوئی کرکٹر ذرا مشہور ہو جائے تو سب سے پہلے اپنی کلاس بدلنے کی فکر اس کو ستانے لگتی ہے۔ وہ کسی پوش علاقے میں بڑا مکان اور مہنگی کار خریدنے چل پڑتا ہے۔ جس محلے میں پل بڑھ کر جوان ہوتا ہے وہاں کے لوگ اسے حقیر لگنے لگتے ہیں۔
عبدالقادر ایک درویش ہی توتھا جس نے ساری دنیا گھوم لی مگر اپنا مکان نہ بدلا نہ خود کو بدلنے دیا۔ وہ اپنے مقام پر رہ کر ہی بلند مقام ہو گیا۔ لوگ اس سے والہانہ پیار کرتے تھے۔ اس کا ثبوت میاں میر دربار میں ہونے والا اس کا جنازہ ہے۔ لوگوں نے اس کی موت پر آنسو بہائے ہیں، کئی ایک کو بلک بلک کر روتے بھی دیکھا ہے۔ وہ رب کی رضا میں راضی رہنے والا انسان تھا۔ اس نے کبھی لالچ نہیں کی۔ اپنے علاقے میں عمران قادر اسپورٹس کے نام سے کھیلوں کی دکان بنا رکھی تھی۔
ایک بار میں نے پوچھا، عبدالقادر صاحب یہ دکان آپ نے اپنے دوست کپتان عمران خان نے نام سے منسوب کی ہے تو جواب ملا نہیں، اپنے بیٹے کے نام پر بنائی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ٹیسٹ کرکٹ پر بحث کے دوران کہنے لگے، اس میں کپتان کا زیادہ کردار نہیں ہوتا۔ ان کا موقف تھا کہ جو ٹیسٹ کرکٹر بن جاتا ہے اس میں کپتانی کرنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس لیے کسی کو بھی کپتان بنا دیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
میں نے ان سے اختلاف کیا اور تین چار کامیاب کپتانوں کے دورکے اعدادو شمار شیئر کیے تو وہ میرا موقف مان گئے۔ میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ عبدالقادر کسی فنکشن میں گیا ہو تو وہ سب سے نمایاں جگہ پر بیٹھنے کی کوشش کرے۔ درویش کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ وہ جب کسی محفل میں بیٹھتا تو مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پرکھلتی رہتی۔ گفتگو میں مزاح کا رنگ نمایاں ہوتا۔ اسے کبھی دکھی دیکھا تو صرف قومی ٹیم کی پرفارمنس پر۔ اس نے کبھی تنقید کی تو سسٹم کی خامیوں پر۔
سب جانتے ہیں کہ وہ کپتان کے کتنے زیادہ قریب تھا۔ کرکٹ میں بہترین پرفارمنس پراسپورٹس کار ملی تو اس کی چابی کپتان کے قدموں میں نچھاور کر دی۔ کپتان کے وزیراعظم بنتے ہی بے شمار کرکٹر عہدے لینے کے لیے ماڈلنگ کرتے دکھائی دیے۔ اس نے اشارتاً بھی کوئی عہدہ نہیں مانگا۔ کون بھول سکتا ہے کہ جب وہ چیف سلیکٹر بنا تھا تو قومی ٹیم ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈ کپ جیت گئی تھی۔ اس میں غلط کو غلط کہنے کی جرات تھی۔ وہ خوددار انسان تھا۔
ایسے لوگ کسی کپتان جو کہ بہترین دوست بھی رہا ہو جب وزیراعظم بن جائے تو اس کے قریب نہیں ہو سکتے۔ حکمرانوں کی قربت کے لیے کچھ مختلف قسم کی خوبیاں درکار ہوتی ہیں۔ ایسی خوبیاں اس میں کہاں تھیں۔ وہ تو ایک درویش تھا۔ دلوں پر راج کرنے والا ایک جادوگر۔ ایک کنگ۔ وہ جو چلا گیا۔