بھارتی وزیر اعظم مودی کی طرف سے لداخ اور جموں کو یونین territories بناتے ہوئے کشمیرکی تین حصوں میں تقسیم بظاہر دو قومی نظریہ کو تسلیم کر کے اور سیکولر بھارت کے چہرے کو ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب شاید پہلا قدم ہے اور یہ کام بھارت کو ہندو توا ملک بنانے کے نام پرکیا گیا ہے۔
اس اقدام سے وادی کو تقسیم کر دیا گیا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور حد بندی کی بنیاد مذہب ہے۔ جموں میں ہندو آبادی کی واضح اکثریت ہے جب کہ لداخ میں بودھ مت کے ماننے والے آباد ہیں۔ یہ دونوں علاقے براہ راست بھارت کی حکمرانی میں لے لیے گئے ہیں۔ لداخ پر بھارت کا چین کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازع چلا آ رہا ہے، اسی وجہ سے چین نے سب سے پہلے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی۔ بھارت ایک فیڈریشن ہے اور آزادی کی جدوجہد کو وحشیانہ طاقت کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔
غالباً اب مودی حکومت کا اگلا قدم وادی کی آزادی کو تسلیم کرنے پر غور اور یہ دعویٰ ہو گا کہ آزاد کشمیر کے عوام کو بھی پاکستان سے آزادی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے۔
صدر پرویز مشرف کی حکومت کے دوران یہ بات سننے میں آ رہی تھی کہ بھارت اور پاکستان اپنے مسائل حل کرنے کے قریب آ رہے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب "Neither a Hawk Nor a Dove" لکھی۔
قصوری نے پس پردہ مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کشمیر کے بعض عوامل کی بھی نشان دہی کی۔ ان میں دیگر عوامل کے علاوہDisarmament، Demobilisation and Reintegration (DDR) کے ذریعے رفتہ رفتہ عسکریت پسندوں کو نکالنے کے لیے علاقوں کو غیر فوجی بنانا، وہاں اپنی حکومت کا قیام اور غیر ریاستی اداکاروں کی طرف سے شورش پر قابو پانا شامل تھا۔ انھوں نے لکھا کہ آزاد جموں وکشمیر کے علاقے میں مسلح افواج میں کمی پر رضامندی کے لیے دونوں ممالک نے طویل مذاکرات کے بعد فیصلہ کیا۔
انھوں نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ "اس بات پر بھی رضا مندی ظاہرکر دی گئی تھی کہ یہ کمی زمینی صورت حال کے بہتر ہونے کی مطابقت سے کی جائے گی۔ "
خورشید قصوری کے مطابق بھارت نے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دورے میں اس وجہ سے تاخیرکی کہ پاکستان میں ججوں کی بحالی کے لیے وکلا تحریک سے پرویز مشرف کی حکومت غیر مستحکم ہو گئی تھی۔ قصوری نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ مشرف کے ساتھ بات چیت میں اسٹیبلشمنٹ نے کشمیرکے غیر روایتی حل کے بارے میں ان کی حمایت کی تھی، جو پس پردہ مذاکرات کے ذریعے تلاش کیا گیا تھا۔ مشرف نے جو کارگل حملہ کے معمار تھے، حیرت انگیز طور پر یو ٹرن لیا اور مسئلہ کشمیرکا حل تلاش کرنے کی حد تک چلے گئے۔ انھوں نے درج ذیل چار غیر روایتی حل تجویزکیے۔
پہلا حل کشمیرکے ان جغرافیائی علاقوں کی نشان دہی کرنا تھا جو اس مسئلہ کا حصہ ہیں جسے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستانی حصہ دو علاقوں میں تقسیم ہے۔ گلگت، بلتستان (جو خود کوکشمیری نہیں مانتے اور انھوں نے کشمیرکے راجہ کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑی تھی) اور آزاد کشمیر۔ بھارتی حصہ تین علاقوں میں تقسیم ہے۔ جموں، سرینگر اور لداخ۔ کیا ان سب پر بات چیت ہونی ہے یا اس کے ایسے لسانی، سیاسی اور تزویراتی پہلو بھی ہیں جو کچھ لو اورکچھ دو پر مجبورکر رہے ہیں؟
دوسرا حل شناخت کیے جانے والے علاقے یا علاقوں کو غیر فوجی بنانا اور آزادی کی جدوجہد کے تمام عسکریت پسند پہلوؤں پر قابو پانا تھا۔ اس سے کشمیریوں کی زندگی میں کچھ سکون آئے گا جو دونوں طرف لڑائی اور قتل و غارت گری سے تنگ آ چکے ہیں۔
تیسرا حل شناخت کردہ علاقے یا علاقوں میںاپنی حکومت یا حکمرانی تھا، یعنی کشمیریوں کو یہ اطمینان دلایا جائے کہ وہ کسی بین الاقوامی چارٹرکے بغیر، آزادی کے سوا، اپنے معاملات خود چلا رہے ہیں۔
چوتھا اور اہم ترین حل یہ تجویزکیا گیا کہ ایک ایسا مشترکہ انتظامی میکنزم وضع کیا جائے، جس میں پاکستان بھارت اور کشمیری شامل ہوں جو سیلف گورننس کی نگرانی کریں اور باقی ماندہ ایسے معاملات کو طے کریں جو تمام شناخت کردہ علاقوں کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور ایسے معاملات سے بھی نمٹیں جو سیلف گورننس کے دائرے سے باہر ہیں۔
بھارت کی طرف سے اس کے آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35a کے ختم کرنے کے بعد، جن کے تحت کشمیر کو خود مختاری حاصل تھی، پاکستان میں شدید رد عمل نے واضح طور پر ثابت کر دیا کہ ریاستوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ حکمران اسٹیبلشمنٹس دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی پالیسیوں کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے مگر عملاً یہ دعوے زیادہ ترکھوکھلے ہوتے ہیں۔ عوام کا فائدہ ریاستوں کے حکمران طبقات کی بعض پالیسیوں کے صرف ضمنی اثرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اکثر جو فیصلے بدنیتی سے کیے جاتے ہیں، ان سے کچھ اچھا ہو جاتا ہے۔ لوگ تنگ نظر قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیے جاتے ہیں۔ اناپرستی اور علاقے کی انسانیت سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے تنازع سے یہ نکتہ عیاں ہے، اس سوچ سے کشمیری عوام کے لیے بالخصوص اور دونوں ملکوں کے عوام کے لیے بالعموم صرف مشکل ہی پیدا ہوئی۔ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ سے بھی یہی بات سامنے آئی ہے۔
نہرو نے1952 میں یقین دلایا تھا کہ "کشمیر کے عوام کی مرضی کے بغیر" بھارتی آئین کو مقبوضہ کشمیر تک وسعت نہیں دی جائے گی۔ نہرو نے جیسا کہ ممتاز صحافی آئی اے رحمان نے حوالہ دیا ہے، کہا تھا کہ " میں اپنے آئین سے بصد احترام کہتا ہوں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا آئین کیا کہتا ہے، اگر جموں اور کشمیرکے عوام نہیں چاہتے تو وہاں اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اب اس کا متبادل کیا ہے؟ متبادل جبرواستبداد ہے…..میں اس پارلیمنٹ سے تمام تر اختلاف کے باوجود کہتا ہوں کہ فیصلہ کشمیری عوام کے دل و دماغ میں ہو گا، یہ نہ توکسی اورکی طرف سے اس پارلیمنٹ میں کیا جائے گا اور نہ اقوام متحدہ میں۔ "
کشمیر سے متعلق ان دو شقوں کو ختم کرنے سے بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بحران مزید سنگین ہو گا اور وہاں مزید فوج بھیجنے سے یہ ثابت ہو گا کہ سویلین لوگوں کے مطالبات سیاسی طریقے سے ماننے کے بجائے بھارت نے کشمیری مزاحمت کو وحشیانہ طاقت سے دبانے کا راستہ اختیارکیا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ چین کے سوا، جس کا بھارت کے ساتھ اپنا سرحدی تنازع ہے، باقی دنیا وہ حمایت نہ کرے جس کا پاکستان منتظر ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سپریم کورٹ بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی اجازت دے گی یا نہیں، آرٹیکل370 اور 35a کو ختم کرکے بھارت نے صدارتی فرمان کے ذریعے ریاست جموں وکشمیرکو اپنی رائے پیش کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا، کیونکہ جموں وکشمیر اس وقت سے گورنر راج کے تحت ہے جب سے جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی توڑی گئی ہے۔