سیموئیل نبی سے ان کی قوم بضد ہوئی کہ خدا سے کہو ہمارے لیے ایک بادشاہ اتارے۔ بولے، سب قوموں کے ہاں عظیم الشان درباروں میں شان و شوکت والے بادشاہ فروکش ہیں۔ ہمیں بھی ایسے ہی رعب و دبدبے والا بادشاہ چاہیے۔ نبی نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا مگر سب مُصر رہے کہ انہیں تو بس ایک بادشاہ چاہیے جو بڑی شان اور کروفر والا ہو۔ نسل در نسل کی غلامی سے بنی اسرائیل کو نجات دلا کر حضرت موسیٰ ؑ چالیس سال کی مسافت کے بعد اپنی قوم کو اس آزاد سر زمین پر لائے تھے کہ مقدس کتابوں میں جس کا ان سے وعدہ تھا۔ غلامی مگرہڈیوں کے گودے میں اتر چکی ہو تو قوم کو ایک نجات دہندہ کی نہیں، ایک بادشاہ کی ہی حاجت ر ہتی ہے!
جزیرہ نما عرب میں کسی مرکزی بادشاہت سے آزاد، صحرا نورد قبائل کے اپنے اپنے متکبر سردار تھے۔ اسلام کی روشنی پھیلی تو مدینہ میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئی کہ جس نے آقا و غلام کا فرق مٹا کر رکھ دیا۔ ریاستِ مدینہ میں کاروبار مملکت کیلئے طے کردہ سیاسی و معاشرتی اصولوں پر مغرب میں آج کی فلاحی حکومتیں استوار ہیں۔ صحرا کے خاک نشینوں نے چند عشروں میں آس پڑوس کی بادشاہتوں کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ دور خلافت راشدہ کے محض تیس سال کے بعد اسلامی دنیا مگر خود بادشاہت میں بدل گئی۔ صدیوں پر محیط، خاندانی ملوکیت کے یکے بعد دیگرے اَدوار گزرے تو بیسویں صدی عیسوی طلوع ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرا تو موروثی خلافت بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے تا ہم ملک کے طول و عرض میں ایک عظیم الشان احتجاجی تحریک برپا کی۔ مسلمانوں کا تاجِ برطانیہ سے مطالبہ تھا کہ ہمارے خلیفہ کو بحال کرو۔ تمہارا اگر بادشاہ ہے تو ہم کو بھی ایک بادشاہ چاہیے۔
جمہوری نظام حکومت میں حکمران عوام میں سے ہوتے ہیں۔ افراد کی شکل میں سیاسی جماعتیں حکومت کرتی ہیں۔ ایک مقررہ مدت کے بعد عوام حکمرانوں کی حکومتی کارکردگی کو جانچتے اور اسی کی بنیاد پرحکمرانوں کو حقِ حکمرانی میں توسیع دیتے یا گھر بھیجتے ہیں۔ مالی و اخلاقی بدیانتی کے مرتکب حکمرانوں کے احتساب کیلئے البتہ عدالتیں ہمہ وقت کارفرما رہتی ہیں۔ تا ہم مہذب معاشروں میں ایسے معاملات عدالتوں تک جانے سے قبل ہی وہ حکمران کہ جن کے دامن داغدار ہو چکے ہوں اپنے عہدوں سے از خود سبکدوش ہو کر گمنامی کے اندھیرے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بصورت دیگر ان افراد کا معاشرے میں جینا دو بھر ہو کر رہ جاتا ہے۔ خیانت کے مرتکب حکمران عوام کی نفرت کا نشان بن جاتے ہیں۔
چنانچہ کہا جا سکتاہے کہ جمہوریت میں افراد نا گزیر اور بے بدل نہیں ہوتے۔ بادشاہت میں مگر بادشاہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ یہ رعایا کے نصیب کی بات ہے کہ انھیں کس طرح کا بادشاہ دستیاب ہو۔ رعایا کو اپنے نصیب کو بدلنے کا بہرحال کوئی اختیار نہیں! بادشاہ ظالم بھی ہوتے ہیں اوربادشاہ رحم دل بھی ہوتے ہیں۔ رعایا پرور بھی ہوتے ہیں اور کئی ایک تو درویش صفت بھی ہوتے ہیں۔ کئی ایک تو محض ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتے ہیں۔ رعایا ہرقسم کے بادشاہ کو منہ مانگا لگان دیتی اور اُسی کے گیت گاتی ہے۔ برطانیہ کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے، تاہم وہاں کے عوام اکیسویں صدی میں بھی ایک وسیع و عریض شاہی خاندان کو پال رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی ملکہ کو اپنے سر کا تاج سمجھتے ہیں۔ شہزادوں کے ہاں شہزادے کی ولادت ہو تو سب ملکر جشن مناتے ہیں۔
مغل بادشاہوں کی طرح برطانوی بادشاہوں اور ملکاؤں نے بھی ہم پر خوب حکومت کی ہے۔ چنانچہ یہ کسی اچ چھنبے کی بات نہیں ہے کہ غلامی ہماری سرشت میں اتر چکی ہے۔ بادشاہ دستیاب نہ ہو تو ہم مقامی بادشاہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ سردار، خان، چوہدری، سائیں، وڈیرے، بھٹو، شریف، زرداری بھی اپنے اپنے علاقوں کے بادشاہ ہی تو ہیں۔ بڑے بادشاہوں کی طرح مقامی بادشاہ بھی اکثر رعایا پرور، رحم دل اور بسا اوقات درویش منش بھی ہوتے ہیں۔ تاہم کئی ایک مفاد پرست بھی ہوتے ہیں جن کو اپنی رعایا کی بہبود سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے دو چار ایسے خاندان ہیں کہ جن کے ہاں صرف حکمران پیدا ہوتے ہیں۔
ہمارے میاں نواز شریف مالی جرائم میں عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں تو کیا ہوا، وہ ہمارے تین بار بادشاہ تورہ چکے ہیں! شہباز شریف کو کچھ بھی کہیں، زرداری صاحب کے مالی معاملات جو بھی ہوں، کبھی وہ بھی ہمارے بادشاہ تھے۔ چنانچہ مریم اور بلاول کی رگوں میں بھی شاہی خون دوڑتا ہے۔ باچا خان کی تیسری نسل لرو بر یو افغان، کے نعروں کے ساتھ پختون پٹی کو ا پنے پرکھوں کی ریاستِ گم گشتہ تصوّر کرتی ہے۔ فضل الرحمٰن جمیعت علمائے اسلام کے مالک مختار اس لئے ہیں کہ پاکستان میں ان کے والداس جماعت کے قائد تھے۔ پی ڈی ایم کے ہر جلسے میں مرکزی سٹیج پر چھوٹے نورانی صاحب محض اس لئے یہاں وہاں لڑھکتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں کہ اُن کے محترم والد صاحب کی جماعت ان کو ترکے میں دستیا ب ہو ئی۔ قصّہ مختصر، ہر شاہی نسل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہم پر حقِ حکمرانی جتائے۔
عمران خان نے مگرسب کچھ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ خود ٹھہرا محض ایک کرکٹر اور اس پر مستزاد کہ دو صوبوں میں شاہی دبدبے سے عاری عامل مقرر کر دئیے گئے ہیں۔ دونوں وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی بلا شبہ بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ ہر دو کی نامزدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی ذات میں اب عمران خان بھی ایک بادشاہ ہی ہیں۔ جس کو چاہیں صوبیدار لگا دیں، جس کو چاہیں واپس بلا لیں۔
آج صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ ہمارے اصلی شاہی خاندانوں کے ولی عہد اپنے اپنے عمر رسیدہ و آزمودہ کارحواریوں کے جلو میں جا بجا آگ اگلتے نظر آتے ہیں۔ شاہی خانوادوں کی شہزا دیوں اور شہزادوں کوکچھ اور نہیں اپنی اپنی راجدھانی واپس چاہئیے۔ ہم آپ سے ان کا مطالبہ بس اس قدر ہے کہ اس نصب العین کے حصول کے لئے رعایا سڑکوں پر نکلے۔ قربانیاں دے۔ شاہی خاندانوں کو امید ہے کہ موسم کھُلنے کے ساتھ ہی جاتی عمرہ کے محلات، ملک کے طول و عرض میں پھیلے بلاول ہائوسز اور مولانا کے وراثتی مدرسوں سے پھول پتیوں سے لدی گاڑیوں میں متمکن ولی عہدوں کے شاہی جلوس برآمد ہوں گے۔ ان شاہی سواریوں کے ہر دو پہلو، بادشاہ کی بادشاہی اور ولی عہدوں کے حق حکمرانی اوربلندیٔ اقبال کے گیت گاتے مرد وزن پا پیادہ و ہمرکاب ہوں گے۔ آسمان نعروں سے گونجتاہو گا۔ ملک کے مختلف خطّوں میں آباد افلاس کے مارے جھولیاں اٹھا اٹھا کرآسمان والے سے اپنا اپنابادشاہ واپس مانگتے ہو ں گے۔
تین ہزار سال قبل سیموئیل نبی سے اُن کی قوم نے بھی یہی مطالبہ کیا تھا، اپنے رب سے کہو کہ ہمیں ایک جاہ و جلال والا بادشاہ عطا کرے!