جناب وزیر اعظم اب آپ پر حملے ہوں گے اور پہلے سے بڑھ کر ہوں گے۔ کچھ لوگ آپ کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا انجام یاد دلائیں گے۔ امریکیوں کو جنہوں نے ہوائی اڈے دینے سے انکار کیا تھا۔ تاجِ برطانیہ، چرچل اور ان کی جماعت تو اگلے تیس سال تک ہندوستان کو آزادی عطا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ امریکیوں کا دبائو کام آیا۔ اسی نوزائیدہ ملک کا وزیر اعظم انہیں فوجی اڈے دینے سے انکاری کیسے ہو سکتا تھا۔
کسمپرسی کے ان دنوں میں پاکستانی فوج دو اطراف سرحدوں سے اٹھنے والی دھمکیوں سے نبرد آزما ہو نے کے لئے اسباب کی تلاش میں تھی۔ ایوب خان سینڈ ہرسٹ کے تربیت یافتہ تھے، مگر تباہ حال برطانیہ نے انہیں کچھ خاص توقع نہ تھی۔ پلٹ کر ساری امیدیں انہوں نے امریکہ سے وابستہ کر لیں۔ امریکی امداد سے نئی چھائونیاں آباد ہونے لگیں، جنگی ساز و سامان آنے لگا۔ بدلے میں پاکستان کی سر زمین سے امریکی جاسوسی جہاز اڑنے لگے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو ہمارے فوجی دستوں کی ضرورت تھی۔ بدگمانیاں اور شکائتیں اس دور میں بھی تھیں۔ امریکیوں کو اعتراض رہتا کہ کمیونزم کے خلاف نہیں، پاکستان کی تمام ترتیاری بھارت پر مرکوز رہتی ہے۔ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑی تو امداد سرے سے روک لی گئی۔ پاکستانی جسے آج بھی نہیں بھول پائے۔ دوستی سے شروع ہونے والا سفر جب آقا اور غلام کے رشتے میں بدلا تو پاکستانی قیادت کے بدلنے کا وقت بھی آگیا۔ جنگ کے شعلے سرد ہوئے تو ملک معاشی طور پرابتراور فیلڈ مارشل شکستہ دل تھے۔ آندھی کی طرح ابھر تے ہوئے بھٹوکو امریکی اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک مگر لامحدود خواہشوں کے اسیر شخص کے طور دیکھتے۔ انہی دنوں برطانوی سفارت کار نے ایک پیش گوئی کی، یہ شخص اپنے ہیجانی عزائم کے ہاتھوں اپنی موت کا پروانہ خود لکھے گا۔
ایک مدہوش شخص کہ دو حصوں میں بٹے اس ملک کا کڑے دور میں سربراہ بن بیٹھا کہ جس کے غیر معمولی جغرافیہ کی مثال ہیپس برگ ایمپائیر کے علاوہ تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ دوسرے فوجی حکمران کواس بار بھٹو نے اکیلے نہیں، مجیب الرحمن کے ساتھ مل کر بدھو بنایا۔ اس کڑے دور میں جب پاکستان کے اپنے وجود کو خطرات لا حق تھے، یحییٰ سرکار امریکہ اور چین کے مابین روابط پیدا کرنے کی سفارت کاری میں مصروف رہی۔ اسی کے بدلے میں ہی امریکہ نے اندرا گاندھی کو کسی مزید مہم جوئی سے باز رکھا۔ بنگلہ دیش مجیب اور بچا کچھا پاکستان بھٹو کا ٹھہرا۔
بھٹو صاحب کا ہنگامہ خیز دور حکومت شروع ہوا تو قائدِ عوام کا استعمار مخالف، بت تراشا گیا۔ پاکستانیوں کو بتایا گیا کہ امریکہ نے انہیں تیسری دنیا کا بلاک بنانے اور ایٹمی اسلحہ کے حصول کی کوششوں کے نتیجے میں عبرت ناک مثال، بنانے کی دھمکی دی ہے۔ (کئی سالوں بعد ہنری کسنجر سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے سرے سے انکار کیا)۔ اُدھرافغانستان میں سوشلسٹ حکمران قابض ہو چکے تھے جبکہ ان کے مقابل سی آئی اے جہادی جتھوں کو میدان میں اتار چکی تھی۔ ایک طرف ان امریکی حمایت یافتہ جہادی جتھوں کے کمانڈرز گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود اور دیگر پشاور میں بھٹو حکومت کی امداد اور میز بانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے، تو دوسری طرف بھٹو صاحب اسی امریکی استعمار پر اپنی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ کیا بھٹو کی حکومت کو مغربی قوتوں کے ایماء پر ہٹایا گیا اور انہیں پھانسی امریکہ نے لگوائی تھی؟ کیا بھٹو واقعی خطے میں امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے؟ یا کہ پھر برسوں پہلے برطانوی سفارت کار کی کی گئی پیشن گوئی کے سچ ثابت ہونے کا وقت آن پہنچا تھا؟ قیاس یہی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی جگہ کوئی بھی حکمران ہوتا تو وہ افغان جہاد، میں مغرب کا اتحادی ہی ہوتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ سیاسی ضرورت کے ساتھ ساتھ جنرل ضیاء کی ذاتی فکر کو بھی یہ جنگ خوب راس آئی تھی۔
بد قسمتی سے ضیاء الحق دور میں سیاست دانوں کی ایک ایسی پود کاشت کی گئی کہ جس کی زہریلی فصل ہم آج بھی کاٹ رہے ہیں۔ دو سیاسی خاندان باری باری اقتدار میں آتے اور ملکی وسائل لوٹتے رہے۔ دونوں اسٹیبلشمنٹ سے خائف اور امریکی باجگزاری کے لئے آنکھیں فرشِ راہ کئے رہتے۔ دونوں ادوار میں امریکی سفیر کو وائسرائے کی حیثیت حاصل رہی۔ جس سے چاہتا، جب چاہتا ملتا۔ بے نظیر نے حکومت سنبھالی تو چار شرائط کے ساتھ۔ وزیر اعظم وہ خود ہوں گی، وزیرِ خارجہ امریکیوں کا ہوگا۔ نواز شریف نے حکومتی معاملات خاندانی کاروبار سمجھ کر چلائے۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں کلنٹن کے ساتھ مل کر اپنے افواج سے بالا بالا، اسامہ کو اغوا کرنے کی خفیہ منصوبہ سازی کرتے رہے۔ امریکی صدر سے تنہائی میں شکایات کرتے۔ 4 جولائی 99ء والے دن بھی امریکی صدر سے تنہائی میں کچھ عرض گزارنے کو کئی دن ملتجی رہے۔
پرویز مشرف کا مخمصہ بھی وہی تھا جو ایوب، یحییٰ اور ضیاء الحق کو در پیش رہا۔ فوجی آمر اپنے اقتدار کے دوام کے لئے قانونی جواز ڈھونڈنے لگ جائے تو اس کے زوال کے دن شروع ہو جاتے ہیں۔ آخری سالوں میں، پرویز مشرف اور بے نظیر کا ملاپ امریکیوں کے لئے ایک حسین خواب سے کم نہ تھا۔ تعبیر مگر ممکن نہ ہو سکی۔ مشرف کے بعد زرداری دور حکومت میں بھی امریکیوں نے پاکستان کی سر زمین کو باپ کی جاگیر سمجھ کر روندا۔ اسی دور میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر دبائو بڑھانے کے لئے وہ منظم نیٹ ورک قائم ہوا، مغرب زدہ لبرلز، انگلش سپیکنگ الیٹ، علیحدگی پسند قوم پرست اور مغربی دارلحکومتوں میں مورچہ زن حسین حقانی نیٹ ورک کے کا رندے جس کا حصہ اور ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ زرداری کے دورِ زیاں کے بعداپنی تیسری باری میں نواز شریف کی توجہ ملکی اداروں سے عناد، بھارت کے ساتھ غیر معمولی طور پر خفیہ سفارت کاری اور ذاتی کاروباری روابط بڑھانے پر مرکوز رہی۔ روزِ اول سے امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اتحادی رہے، تاہم دو خاندانوں کی حکمرانی پر محیط یہی عشرہ ہے جب اتحادی بدلے۔
لندن میں بیٹھے سابق حکمران اب بھی طاقتور مغربی دارلحکومتوں کو اپنی وفا داری کا یقین دلانے اور اپنی خدمات پیش کرنے میں دن رات کوشاں ہیں۔ امید بھری نظروں سے صدر بائیڈن کو دیکھتے ہیں۔ عمران خاں کو مغرب مخالف او ر قرونِ وسطیٰ میں جینے والےاسلام پسند، جابر حکمران کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو عورتوں کو اسی زمانے میں دیکھتا ہے۔ صدر بائیڈن کے پاس وزیر اعظم عمران خان سے بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔ عمران خان کسی قاصد سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی صورت میں امریکی جنگ کا حصہ بننے سے وہ انکار کر چکے۔ جناب وزیر اعظم، اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔