وطنِ عزیز میں سیاسی تنائو عروج پر ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ سیاسی خاندان انتشار اور بے یقینی کی فضاء میں ہی اپنی بقاء دیکھ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں نظام لپیٹے جانے کی آرزو مندنہیں۔ تاہم دونوں جماعتوں کی اقتدار میں واپسی کے راستے میں اداروں کو رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ ماضی میں بڑی سیاسی جماعتیں اداروں کے ساتھ تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود کش مکش کو اپنی باری کی امید پرعشروں سے متعین حدود میں رکھتے ہوئے آئی ہیں۔ اس بار صور تحال مختلف یو ں ہے کہ اتحا د میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو بیک وقت مالی کرپشن کے بظاہرناقابلِ تردید الزامات کی صورت میں زندگی یا موت کا سا معاملہ در پیش ہے۔
ستمبر2020ء کے دوران محمد زبیرکی عسکری قیادت کے ساتھ دو طویل مگر بے ثمر ملاقاتوں کے بعدتمام راستے بند دیکھ کر میاں صاحب نے جو انتہا پسندانہ رویہ اپنایا، اُسے سیفما گروپ، میں توہاتھوں ہاتھ لیا گیا، تاہم اس کے نتیجے میں د ونوں باپ بیٹی اب اس مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ جہاں سے فوری واپس لوٹنا اب ان کے لئے ممکن نہیں۔ عمران خان کو نکال باہر کرنے کی خاطر میاں صاحب اب کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی کو چیئرمین سینٹ اور وزیرِ اعظم سمیت ہر عہدہ دینے کو تیار ہیں۔ نظام پاش پاش ہو جائے، اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ مریم نواز نے جس تلخ نوائی کی بناء پرشہرت پائی ہے وہ دراصل ان کے والدکے ذہنی کیفیت کی عکاس ہے۔ میاں صاحب بہت جلدی میں نظر آرہے ہیں۔
دوسری بڑی پارٹی کے سربراہ زرداری صاحب سسٹم کے سٹیک ہولڈر ہیں۔ جانتے ہیں کہ سندھ سے باہر، بالخصوص پنجاب میں ان کی پارٹی کوئی وجود نہ رکھنے کی بناء پرکسی بھی احتجاجی تحریک میں موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ سندھ میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ چنانچہ استعفوں اور لانگ مارچ جیسے آپشن کی بجائے وہ پارلیمنٹ کے اندر کردار ادا کرنے میں ہی اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ مزید برآں اسی کھیل میں وہ مہارت رکھتے جس کا مظاہرہ انہوں نے سینٹ کے حالیہ انتخابات میں کیاہے۔ اگرچہ اپنے خلاف مقدمات میں انہیں کسی اور کا ہاتھ نظر آتاہے، تاہم بلاول کی بلند آہنگ جذباتی گفتگواپنی جگہ، زرداری صاحب کو اب بھی کرپشن کے مقدمات میں مناسب رعایت دے دی جائے تو وہ موجودہ بندوبست میں عمران خان کے ساتھ لپک کر بیٹھنے کو تیار ہوں گے۔ محض ایک رکاوٹ ہے، خود سے وابستہ لوٹ مار کا مداوا کرنے کووہ تیا ر نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن اداروں سے چاہتے ہیں کہ وہ عمران حکومت کو نکال باہر کریں۔ اگرچہ موافق ردِ عمل کی صورت میں وہ اداروں کے ساتھ تعلقاتِ کار بحال کرنے کو تیار ہوں گے، تاہم فی الحال اداروں پر مولاناکی برہمی بوجہ قابلِ فہم ہے۔
حال ہی میں کہا جانے لگا تھاکہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی حمایت سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ ایک سنیئر صحافی نے لکھا کہ یہ تبدیلی نواز شریف کی طرف سے ادارے پرجارحانہ الزام تراشی کی بناء پر پیدا ہونے والے دبائو کا نتیجہ ہے۔ خیال ظاہر کیا گیا کہ اس دبائو کو محسوس کرتے ہوئے ہی نیچے والوں، نے اپنی قیادت کو عمران حکومت کی حمایت سے ہاتھ اٹھانے کا مشورہ دیا۔
کیا عسکری قیادت نے منتخب حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا؟ اس بارے میں قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک ادارے کے اندرنیچے سے اٹھنے والے دبائو، کا تعلق ہے تواس بارے میں بھی یقین سے کچھ کہنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ تاہم لاکھوں سابقہ فوجیوں اور ان کے خاندانوں سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان سے جس قدر بھی مایوس ہوں، دو سیاسی خاندانوں سے ان کی اکثریت اب بھی کہیں بڑھ کر بیزار ہے۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ تبدیلی، کے بارے جو گرم جوشی کچھ سال پہلے ان میں پائی جاتی تھی، حکومتی کارکردگی کی بناء پر حالیہ مہینوں میں اس کی حدت کچھ کم ہوتی محسوس ہوئی۔ اِکا دُکا سابقہ فوجی جو حلقہ یاراں میں کمبل پریڈ، کے ڈر سے سابقہ حکمرانوں کی مدح سرائی سے تو اب بھی کتراتے، تاہم عمران خان کی ذات پر اُن کی تنقید ضروربے باک ہو چلی تھی۔ تارکینِ وطن پاکستانیوں کی طرح، از کارِ رفتہ فوجی بھی اسی پاکستانی مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں، حالیہ اندازوں کے مطابق جس کی حمایت سے عمران خان محروم ہوچکے تھے۔ سینٹ کے حالیہ انتخابات نے مگر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ عمران خان سے شدت کے ساتھ نفرت کرنے والے کم نہیں، تاہم حالیہ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ ان کے حمایتی بہت بڑی تعداد میں اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ گیلانی صاحب کی فتح کے نتیجے میں میڈیا، بالخصوص سوشل میڈیا کے علاوہ پارلیمنٹ کے باہرجو ردِ عمل آیا، وہ اسی حقیقت کا غماز ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ ادارے اس ردِ عمل اور اس کے مضمرات سے غافل نہیں۔
یاد رکھنے کی بات مگر یہ ہے کہ محبت اور نفرت کے اس اعصاب شکن کھیل میں نظام چرچرا رہا ہے۔ اپنی اپنی مجبوریوں اور مفادات کی بناء پر فریقین جن انتہا پسندانہ مقامات پر کھڑے ہو چکے ہیں اس کا مظاہرہ پی ٹی آئی کارکنوں کے مذکورہ اجتماع میں لیگی رہنمائوں کے ساتھ بے جا بد تہذیبی اور اس کے جواب میں مریم نواز کی جانب سے ایک تھپڑ کے جواب میں دس تھپڑوں کی دھمکی کی شکل میں سامنے آیا ہے۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں در پیش صورتحال کے اندرانصاف کے سیکٹر سے ہی تمام امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ تاہم اندریں حالات سیاست اورصحافت کے علاوہ انصاف کا سیکٹر بھی اسی بھیانک تقسیم سے متاثر نظر آرہا ہے۔ اپنے ذاتی مقدمے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اندر کھڑے ہو کرکوئی معزز شخصیت جب ان الزامات کو دہرائے، جومغربی دارلحکومتوں میں مورچہ بند کارندوں کی طرف سے حکومت اورقومی اداروں کے خلاف روا رکھے جانے والے پراپیگنڈا سے مماثلت رکھتے ہوں، جب مخصوص عدالتی شخصیات کی مظلومیت کا تذکرہ حکومت مخالف جلسوں میں بار بار ہو، جب انہی جیسوں کی تصویریں عزیمت، پر تلی سیاسی جماعتوں اور مخصوص صحافیوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس پر مستقلاََآویزاں نظر آئیں تو تقسیم کی سنگینی کا اندازہ مشکل نہیں ہونا چاہیئے۔
ان حالات میں جبکہ بد عنوانی کے مقدمات اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہوئے نظر نہیں آرہے، امکان یہی ہے کہ اپوزیشن میں انتہا پسند عناصراداروں پر دبائو بڑھاتے رہیں گے۔ دوسری طرف عمران خان کی سپورٹ بیس بھی برقرار رہتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ انتشاراوردائمی بے یقینی کی کیفیت غیر معینہ مدّت کے لئے برقرارر رہے گی۔ اندازہ یہی ہے کہ سسٹم سے باہر بیٹھے نوا زشریف ا نتشار کی اسی اعصاب شکن کیفیت میں اپنی نجات دیکھ رہے ہیں۔