اپنے بیشترہم عصر ساتھیوں کی طرح مجھے بھی پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردوں کے خلاف تقریباً دو عشروں پر محیط جنگ کا حصہ بننے اور عزم و یقین سے آراستہ لازوال قربانیوں کے ان گنت ناقابل فراموش واقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
22 مارچ نوجوان لیفٹیننٹ طیّب کی شہادت کا دن ہے۔ آج سے سترہ سال پہلے جنوبی وزیرستان کے مقام سروکئی پر پاک فوج کے اس بائیس سالہ افسر نے اپنے کئی ساتھیوں سمیت جانفروشی کی ایسی ہی ایک داستان اپنے خون سے لکھی تھی۔
سال 2002ء میں میں نے یونٹ کی کمان اس ماحول میں سنبھالی کہ وطنِ عزیز پر دو اطراف سے روائتی وغیر روائتی جنگ کے خطرات چھائے ہوئے تھے۔ مشرق میں ہماراازلی دشمن، جنگی سازوسامان کی برتری کے زعم میں مبتلا، حیلوں بہانوں سے مسلسل ہم پر دبائو بڑھاتے ہوئے اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر تعینات کئے ہوئے تھا۔ جبکہ دوسری طرف مغرب میں دہشت گردی کا عفریت پھن پھیلائے ابھرتا چلا آ رہاتھا۔ بحیثیت پاکستانی، مشرقی سرحدوں پر منڈلانے والے خطرات کے بارے میں ہم میں سے کسی کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ مغرب کی طرف صورت حال تاہم مختلف تھی۔ دوست اور دشمن کی پہچان میں بے یقینی کی کیفیت کو اندرون و بیرونِ ملک، مخصوص عناصر اپنے منفی پراپیگنڈا کے ذریعے مزید دھندلا رہے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا کا ظہورہو چکا تھا۔ وہ جو مقامی اخبارات میں سنسنی پھیلاتے تھے، اب قومی سطح کے اینکر پرسنز اور میڈیاسٹارز، بن کر شہرت پارہے تھے۔
مارچ کے اوائل میں صدرمشرف نے اپنی سر زمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کئے جانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا، تو بھارت کے لیے پاکستان پر مزید دبائو بڑھانا ممکن نہ رہا۔ نومبر2002ء کے اوائل میں بالآخر دونوں ملکوں نے اپنی اپنی افواج کی چھائونیوں میں واپسی کا فیصلہ کیا، تو ہماری فارمیشن بھی زمانہ امن کے مقام پر واپس لوٹ گئی۔ کوہاٹ واپسی پر ایک عام تاثر تھا کہ جنگ کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ مغربی سرحد پرخاک و خون میں لپٹی سیاہ رات کے گہرے سایوں کی طوالت کا ہمیں اس وقت پورا ادراک نہ تھا۔
افغانستان میں امریکی حملے کے بعددنیا بھر سے آئے عسکریت پسند تتربتر ہوئے تو بیشتر غیر ملکی جنگجو پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں اور پاکستان کی قبائلی پٹّی میں روپوش ہو چکے تھے۔ اگرچہ فضا میں تنائو تھا لیکن روپوش غیر ملکی دہشت گردوں یا قبائلی عوام اورپاک فوج کے درمیان ٹکرائو کا اب تک کوئی قابلِ ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔ ایف سی کے قافلوں پر حملے ہو رہے تھے تاہم پاک فوج کی رسد وحرکت قبائلی علاقہ جات میں بغیر کسی روک ٹوک اور بلا تردد معمول کے حفاظتی اقدامات کے ساتھ جاری تھی۔ فوجی تنصیبات یا راستوں پرمقامی ساخت کی بارودی سرنگوں سے حملوں کابھی تصورموجود نہیں تھا۔ اَن دیکھے اندیشوں کی بناء پر گو فضا خوف سے آلودہ اور باہمی شکوک و شبہات سے بو جھل ہو چکی تھی، تاہم اس سب کے باوجود ابتدائی دنوں میں پارا چنار، شمالی اور جنوبی وزیرستان کی اتھاہ ویران اور گہری گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے ایک بار بھی احساس نہ ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعدیہ علاقہ خاک و خون، وہشت و خوف کے اندھیرے میں اس طرح غرق ہوگا کہ ہر ذی روح یہاں سے اپنے جسم وجان پر گہرے گھائو لے کرہی نکلے گا۔
کئی ماہ قبائلی علاقوں میں قبرستان کا سا سکوت طاری رہا۔ جیسے ہولناک طوفان کے آنے سے پہلے کی پر اسرار خاموشی! فی الوقت دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر کھلم کھلا حملوں سے گریزکیا جا رہا تھا، لیکن دل پھٹنے کوآرہے تھے۔ صدیوں سے انسان کے اندر چھپے شکاری اور اپنے دفاع کی خاطر اس کو ودیعت کی گئی حیوانی جبلیات ہوش و حواس پر غالب آتی جا رہی تھیں۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ اب ایک بارود کا ڈھیر تھا۔ ایک چنگاری کا منتظرتھا۔ تنائو کے اسی دور میں فروری2004ء کے دوران وانا کے اعظم بازار میں دن دیہاڑے پاک فوج کے ایک جوان کو سینے میں گولی اتار کر شہید کردیا گیا۔ پاک فوج نے زخم کھا کر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حالات میں کشیدگی کے پیشِ نظر فروری میں میری یونٹ کو بھی وانا میں کچھ ذمہ داریاں تفویض کی گئیں، جن کے لئے میں نے اپنے نوجوان افسروں میں سے لیفٹیننٹ طیب کا انتخاب کیا۔ اتوار کے روز طیب نے تمام تر تیاری کے بعد مجھے گھر پر فون کیا اور روانگی کی اجازت طلب کی۔ میں نے طیب سے کہا کہ اگروہ ویک اینڈ گھر گزارنا چاہتا ہو تو اگلے روز روانہ ہو جائے۔ لیفٹیننٹ طیب کا جواب آج بھی میرے کانوں میں گونجتاہے، نہیں سر آج ہی جانا ضروری ہے۔
طیب کا قافلہ سات آٹھ گھنٹوں کے سفر کے بعد رات خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات کی سر حد پر واقع شہر ٹانک میں قیام کے لئے رکا۔ اگلی صبح اسی قافلے میں قبائلی علاقہ جات میں سڑکیں تعمیر کرنے والے فوجی انجینئرز کی بھاری بھر کم سست رفتار مشینری کوبھی شامل ہونا تھا۔ رات کا کھانا کھا کر طیب نے مجھے فون کال کی، جو میری اس کے ساتھ آخری گفتگو تھی۔ میں نے اس کو تاکید کی کہ وانا پہنچتے ہی مجھے اطلاع کرے۔
اگلے دن سہ پہر میز پر پڑا میرا موبائل فون بجنے لگا۔ فون سنا توطیب کی شہادت کی اطلاع مل گئی۔ وانا سے تیس میل پہلے سروکئی کے مقام پر دہشت گردوں کے اچانک حملے میں طیب سمیت انجینئرکور کے ایک میجر اور متعدد جوان جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ طیب کا جسدِ خاکی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ کوہاٹ لایا گیا۔ میں پہنچا تو طیب خون آلود خاکی وردی اوڑھے ابدی نیند سو رہا تھا۔ شہید کے چہرے پر سے سفید چادر ہٹائی تو گردن پر گولی کا کاری وار نمایاں تھا۔ ٹھوڑی پررکھی سفید پٹی، گردن کے قریب قمیض کا کالر اور چھاتی کا کچھ حصہ خون آلودتھے۔ اس واقعے کی انکوائری بریگیڈیئر شاہد نے کی۔ عینی شاہدین کے مطابق چار اطراف سے اچانک حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کے گھیرے میں طیب آخری سانس تک تنہا بے جگری سے لڑتا رہا تھا۔
طیب کی شادی کو محض ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا تھا اور اسکی ایک چھ ماہ کی پیاری سی بیٹی تھی۔ کچھ ہفتوں بعدنوجوان بیوہ اپنی بیٹی کو لے کر کراچی روانہ ہوگئیں۔ صرف ماں بیٹی کے لئے ہی نہیں، پوری پا کستانی قوم کے لئے عشروں پر محیط طویل سیاہ رات کا آغاز ہو چکا تھا۔
بریگیڈئیر شاہد کی رپورٹ میں لیفٹیننٹ طیب کے لئے اعلیٰ عسکری اعزاز کی سفارش کی گئی تھی۔ نوجوان افسر کا اعزاز مگر ان گمنام سپاہیوں میں شامل ہونا ٹھہرا کہ جن کے لہو سے سینکڑوں بے نام چراغ جلے تو ہی اُن کی لَو سے طویل سیاہ رات کٹتے کٹی۔