آرمی پبلک سکول پشاور سانحہ میں 132بچوں سمیت 149بے گناہ مرد و زن کی جانوں کا مداوا ہر گز ممکن نہیں۔ دنیا کے اُ س پار جو ُاتر گئے، ان کو واپس لانا بھی کسی کے بس کی بات نہیں۔ تاہم جہاں مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچا نا ریاست کی اوّلین ذمہ داریوں میں شامل ہے، وہیں د نیا بھر میں لواحقین کی دل جوئی کے لئے کچھ مراعات کااعلان کیا جاتا ہے، جن میں مالی امداد کے ساتھ ساتھ شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کی فلا ح و بہبود کے کچھ اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ اگلے روز سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی شنوائی کے دوران عدالت نے وزیرِ اعظم کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تو انہوں نے عدالت کے روبرو لگ بھگ یہی وضاحت پیش کی۔
کئی سال پہلے اُس وقت کے کور کمانڈر پشاورجنرل ہدایت الرحمٰن نے اے پی ایس شہداء کے لواحقین سے ملاقات کے دوران لواحقین کی فلاح و بہبود کے لئے منظور کردہ اقدامات کا اعلان کرنے کے بعد دو شہید بچوں کی والدہ سے یہی بات ان الفاظ میں کہی، بہن، میں آپ کے بچوں کو تو واپس نہیں لاسکتا، لیکن ایک انسان اور کور کمانڈر کی حیثیت میں جو ممکن ہوا، آپ کی امداد کے لئے کروں گا،۔ کور کمانڈر کی لواحقین سے تمام ملاقاتیں کیمروں پر ریکارڈ کی جاتی تھیں۔ یہی تمام ریکارڈ جو ڈیشل کمیشن کے سامنے بھی پیش کیا گیا جو سانحے کے ذمہ داروں کی نشاندہی کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ المناک سانحہ جب رونما ہوا توملک دہشت گردی کی جنگ میں جل رہا تھا۔ دہشت گردوں سے نبرد آزما سلامتی کے اداروں کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ لاہور کی مون مارکیٹ، پشاور کے مینا بازار، پارکوں، مزاروں، اور عبادت گاہوں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت معصوم پاکستانی ملک کے طول و عرض میں بے گناہ مارے جا رہے تھے۔
ہزاروں کی تعداد میں ہمیشہ کے لئے جسمانی طور پر معذور ہوجانے والے الگ تھے۔ اے پی ایس سانحے کے بعد مگر قوم ایک نا قابلِ بیان صدمے سے دوچا ر ہوئی۔ اگرچہ اے پی ایس سکولوں کے قیام کا بنیادی مقصد فوجیوں کے بچوں کوچھائونیوں کے اندر تعلیمی سہولیات کی فراہمی تھا، تاہم وہ سویلین والدین کہ جو سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانا نہیں چاہتے، جبکہ مہنگے پر ائیویٹ سکولوں کے اخراجات برداشت کرنا ان کے بس سے باہر ہو تا ہے، آرمی پبلک سکولز میں بچوں کے داخلے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
اے پی ایس کے شہداء کے لواحقین کی دل جوئی کیلئے ریاست سے جو بھی بن پڑا، کیا گیا۔ دہشت گردی کی جنگ کے دوران ملک کے طول و عرض میں شہید ہونے والے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ سویلین شہداء کے لواحقین کے لئے جو شہداء پیکیج، حکومت کا منظور شدہ تھا، اے پی ایس کے شہداء کے لواحقین، زخمیوں کی بحالی اور لواحقین کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کردہ امداد اور مراعات اس سے کئی گنا بڑھ کر تھیں۔ سفید پوش گھرانوں کے لئے مالی امداداور دیگر مراعات کی اہمیت وہی سمجھ سکتے ہیں جنہیں ان حالات سے واسطہ پڑا ہو۔ خود میری اپنی یونٹ میں میرے ایک افسر نے جامِ شہادت نوش کیا تو اس کی نوجوان بیوہ اور چھ ماہ کی بیٹی کو جی ایچ کیو سے دس لاکھ روپے بطور امداد ملے۔ جنگ کے ابتدائی دور میں شہداء کے لواحقین کو صرف یہی ملتا تھا۔
نوجوان بیوہ نے زندگی کم سن بیٹی کے لئے وقف کرتے ہوئے کس تگ ودو سے اسے پالا، یہ صرف وہی جانتی ہیں۔ سانحے کو سات سال ہونے کو آئے ہیں۔ بیشتر مجرمان گرفتار یا ٹھکانے لگائے جا چکے ہیں۔ شہداء کے لواحقین میں سے چند ایک لواحقین مگراب بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی دانست میں سانحے کے جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دلوانے کے ان کے مطالبات اپنی جگہ پر اب بھی موجود ہیں۔ ایسے ہی چند لواحقین جب سرکاری عمارتوں کے باہر نظر آتے ہیں تو کئی ایک رپورٹرز بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ان سے گفتگو کی جاتی ہے، ان کے تاثرات لئے جاتے ہیں۔ معتبرصحافیوں کی رپورٹس اخباروں میں چھپتی ہیں، ریکارڈ کردہ ویڈیوز ٹی وی چینلز پر نشر ہوتی ہیں، ، جبکہ جو مین سٹریم میڈیا میں چھپنے یا نشر ہونے کے قابل نہ ہوں وہ مواد سوشل میڈیا پر آجاتا ہے۔ حال ہی میں ویڈیو ایک خاتوں صحافی نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر شیئر کی ہے۔
شمسی صاحبہ انگریزی میڈیا گروپ کے ٹی وی چینل پر ٹاک شو کیا کرتی تھیں۔ 44سیکنڈز پر محیط ان کی شیئر کردہ ویڈیو ایک غمزدہ خاتون کی مختصر گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس ویڈیو میں خاتون روتے ہوئے پشاور کور کے اس وقت کے کمانڈرکا نام لیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کور کمانڈر نے انہیں کہا تھاکہ پاکستان میں بہت شہید ہیں، کیا ہوا اگر آپ کے بچے شہید ہوگئے، اور پیدا کرلو،۔ خاتون سے ہمیں گلہ نہیں۔ دل گرفتہ ہیں۔ شہیدوں کا ہر وارث گھرانہ ہمیں عزیزاور اس کے احساسات کا احترام ہم پر لازم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سانحے کے فوراََ بعد جب ساری قوم شدید صدمے کی حالت سے دوچار تھی توکیا اس ماحول کے اندراس درجے کے کمانڈر سے شہداء کے لواحقین کے ساتھ بھری محفل میں اس پیرائے میں گفتگو کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کسی اور سے نہیں خاتون صحافی سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے پہلے کیا انہوں نے جنرل ہدایت الرحمٰن سے اس بابت ان کا مئوقف جاننے کی کوشش کی؟ کیا تحقیق کی خاطر شہداء کے کچھ دیگر خاندانوں کے تاثرات بھی لئے اور نشر کئے گئے؟
اگرچہ سوشل میڈیا پر بے جا بہتان تراشی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے، غلاظت سے مگر صرفِ نظر ہی بہتر ہے۔ تاہم کل سے زیرِ نظر ویڈیو کودیکھنے کے بعد میں ذاتی طور پر شدید کرب کا شکار ہوں۔ سوچتا ہوں، مخاصمت میں ہم کس حد تک گریں گے؟ کیا بے جا نفرت نے ہمارے دلوں کو پتھر کر دیا ہے؟ اگر جنرل ہدایت الرحمٰن سے منسوب الفاظ مبنی بر حقیقت ہیں تو انہیں ان کے لئے جوابدہ ہونا چاہیئے۔ تاہم اگران سے منسوب جملے درست نہیں تو شہداء کے لواحقین کے جذباتی استحصال کے پسِ پردہ عزائم کو بے نقاب کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسی کسی کوشش کی صورت میں کئی طاقتورعناصر شر انگیزوں کی پشت پر کھڑے ہو جائیں گے، ریاست کوبہر حال اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔ شہیدوں کے خون کی حرمت کا یہ کم سے کم تقاضہ ہے۔