اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اُردو میں صحافت اور ادبی صحافت کا آغاز فورٹ ولیم کالج کی معاونت سے کلکتہ سے ۱۹۲۲ء میں منشی سدا سُکھ کی ادارت میں جاری ہونے والے پرچے "جامِ جہاں نما" سے ہوتا ہے۔ ۱۸۵۳ء تک برصغیر سے نکلنے والے اُردو اخبارات کی تعداد ۳۵ ہو چکی تھی، جو ۱۸۵۷ء تک سو سے بھی تجاوز کر گئی۔ ان میں مولوی محمد باقر کا "دہلی اردو اخبار" (۱۸۳۶ئ) سرسید کے بڑے بھائی سید محمد خاں کا "سید الاخبار" (۱۸۳۷ئ) اور لاہور سے ابتدائی طور پر نکلنے والے "کوہِ نور" (۱۸۵۰ئ) جیسے وقیع پرچے بھی شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ادب اور صحافت نے ابھی ایک دوسرے سے منھ نہیں موڑا تھا۔ علمی، ادبی مضامین تو رہے ایک طرف اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں میں بھی ادبی چاشنی موجود ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر لوگوں کو چوری چکاری کی وارداتوں سے متنبہ کرنے کے لیے جنوری ۱۸۵۷ء میں چھپنے والے اخبار "طلسمِ لکھنو" کی یہ خبر ملاحظہ ہو:
"لکھنو میں سنیچر آیا ہے، چوروں نے ہنگامہ مچایا ہے۔ جو سانحہ ہے عجائب ہے، آنکھ جھپکی، پگڑی غائب ہے:
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھام لو دستار
۱۸۵۷ء کے سانحے کے بعد ادب اورصحافت کے راستے کسی حد تک جدا ہو گئے لیکن اس کے باوجود "تہذیب الاخلاق" کے لکھاریوں "اودھ پنچ" کے شکاریوں اور "اودھ اخبار" کی سرشاریوں نے ادب اور صحافت کا ناطہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ ہنسی کو ڈیڑھ سو سال سے ترسی ہوئی اس قوم کو اودھ پنچ، کی زندہ دلی اور منھ پھٹ اسلوب ایسا بھایا کہ ہندوستان کے ایک ایک شہر سے پنچ اخبار برساتی کھمبیوں کی مانند پھوٹ نکلے۔ ریاض خیر آبادی کے فتنہ، اور عطرِ فتنہ، اسی سلسلے کا تسلسل تھے۔ بیسویں صدی کی صحافت کا ذائقہ چکھنے کے لیے ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، ظفر علی خاں، محمد علی جوہر، غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک کی تحریروں پر نظر کریں تو وہ صحافت کے قلبوت کو ادب کے سانس کی ڈوری کے ذریعے متحرک و متبرک رکھے ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی ہی میں شیخ عبدالقادر کا مخزن، (۱۹۰۱ئ) جسے قائدِ اعظم لائبریری نے ایک صدی بعد یعنی ۲۰۰۱ء میں دوبارہ شروع کیا، اکیس سال سے جاری ہے، الحمدللہ خاکسار بھی گزشتہ سات سال سے اس کی ادارت سے وابستہ ہے۔ ادبی دنیا، جسے۱۹۲۹ء میں تاجور نجیب آبادی نے لاہور سے شروع کیا، ۱۹۳۲ء میں اسے مولانا صلاح الدین نے خرید لیا۔ اسی طرح شاہد احمد دہلوی کا ساقی، (۱۹۳۰ئ) چودھری برکت علی کا ادبِ لطیف، (۱۹۳۶ئ)، محمد طفیل کا نقوش (۱۹۴۸ئ)مجید لاہوری کا نمک دان، (۱۹۴۸ئ) حیدر آباد سے نصف صدی سے زائد عرصے سے نکلنے والا شگفتگی کا حاملشگوفہ، دہلی کا کتاب نما، اور بک ریویو، بمبئی کا شاعر، اور لاہور کا چاند،۔ اسی طرح صہبا لکھنوی کا افکار، ، نسیم درانی کا سیپ، احمد ندیم قاسمی کا فنون، وزیر آغا کا اوراق، حنیف رامے کا نصرت، کرنل محمد خاں کا اُردو پنچ، گلزار جاوید کا چہار سُو، عطا الحق قاسمی کا معاصر، ، شبیہ الحسن کا شام و سحر، اے جی جوش کا ادب دوست، خالد علیم کا فانوس، ڈاکٹر انوار احمد کا پیلھوں، طارق حبیب کا شبیہ، ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد کا استعارہ، ارشد خالد کا عکاس، اور نوید صادق کا کارواں، وغیرہ اس شعبے کی تقویت کا باعث بنے۔ ان کے ساتھ ساتھ سرکار کے خرچے پہ ادبیات، اخبارِاُردو، قومی زبان، اقبال، صحیفہ، ماہِ نو وغیرہ نے بھی کسی حد تک ماحول کو گرمائے رکھا۔ مختلف جامعات کے کثیر المقاصد مجلّے، جو ادب سے زیادہ جامعاتی اساتذہ کی مالی و محکمانہ ضروریات کے کفیل ہیں، ایک الگ مضمون کا موضوع ہیں۔
لمحۂ موجود میں جن پرچوں کی استقامت، معیار اور باقاعدگی قابلِ تحسین و لائقِ تقلید ہے۔ ان میں ایک تو لاہور سے جناب شاہد علی خاں کی زیرِ ادارت گزشتہ اکیس سال سے ہر مہینے کی دس کو کسی مضبوط مالی ساکھ کے حامل محکمے کی تنخواہ کی طرح باقاعدگی سے موصول ہونے والا ماہنامہ الحمرا، ہے۔ شاہد علی خاں بنیادی طور پر بینکر ہیں لیکن انھوں نے خاندانی روایت کی پاسداری میں ادب کی خدمت کا فریضہ جس جاں فشانی کے ساتھ ادا کیا ہے، وہ یقینا قابلِ رشک ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے اپنے اس وقیع ادبی پرچے پہ کسی مخصوص ادبی گروپ کی چھاپ نہیں لگنے دی۔ سینئر سے سینئر ادیب شاعر کو بھی چھاپا ہے اور کسی نئے لکھاری کو بھی مایوس نہیں کیا۔ پرچے کے آخر میں شامل خطوط کے ذریعے ہر ایک کو آزادیِ اظہار اور گرمیِ گفتار کا بھی پورا پورا موقع فراہم کیا ہے۔
اگر لاہور سے کراچی کی طرف دھیان کریں تو وہاں کی تمام تر زمینی آلودگیوں، سیاسی کشیدگیوں اور سماجی پیچیدگیوں کے باوجود جیسے ہی ذہن میں مبین مرزا کا نام آتا ہے تو دل، دماغ اور ماحول آسودگیوں سے سرشار ہو جاتا ہے۔ مبین مرزا جو اکادمی بازیافت، سے معیاری کتب اور ۱۴۴ صفحات پر مشتمل معروفکتابی سلسلے مکالمہ، کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی ادب کی اشاعت کا سلسلہ نہایت دیانت اور ذہانت سے انجام دے رہے ہیں۔ مبین مرزا ایک عمدہ پبلشر، دانا مدیر اور خوب صورت افسانہ نگار ہونے کے ساتھ موجودہ ادبی منظرنامے کے نہایت معتبر نقاد اور گواہ ہیں۔ عالمی ادبیات پہ گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ادب کی ایک مقبول ترین صنف خاکے، کا اک کڑا انتخاب کر رکھا ہے۔
مبین مرزا کے اسی مکالمہ، کے مزے دار سائز کے تین پرچے (۵۰، ۵۱، ۵۲ نمبر) ابھی میرے سرہانے دھرے تھے۔ تازہ ترین لاک ڈاؤن کا مثبت فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا مطالعہ شروع کیا تھا کہ آج ۵۳ نمبر شمارہ بھی آن گلے ملا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے قلم کاروں کی تازہ و توانا نثری و شعری تحریروں کی مستی سے چھلکتے ان چاروں پرچوں کو دیکھ کے یقین مزید پختہ ہو رہا ہے کہ خدا کا سچے دل سے شکر ادا کرتے رہیں تو وہ شکر خورے کو اسی طرح وافر مقدار میں شکر دیتا چلا جاتا ہے۔
پھر کراچی ہی سے شاعر علی شاعر کے رنگِ ادب، (ان کے اشاعتی ادارے اور پرچے کا یہی نام ہے) کا تذکرہ نہ کیا جائے تو ہمارا آج کا یہ موضوع تشنہ اور نامکمل رہے گا۔ جناب شاعر علی شاعر خوب صورت کتابیں چھاپنے میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ مشاعروں میں بے پناہ شاعری کرتے پائے جاتے ہیں اور ٹھیک ٹھاک قسم کا ادبی پرچہ نکالتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہم نے آج تک ان کے رسالوں کو محض معمول کی کارروائی سمجھا تھا۔ لیکن حال ہی میں موصول ہونے والے پرچے نے تو چونکا کے رکھ دیا ہے۔ جی ہاں دوستو! یہ جمبو سائز کے پورے آٹھ سو صفحات پر محیط شمس الرحمن فاروقی نمبر ہے، جو اس موضوع پر ظاہر ہے، نہایت وسیع اور وقیع دستاویز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شمس الرحمن فاروقی موجودہ ادبی منظرنامے کی معتبر ترین شخصیت ہیں۔
اس پرچے کے پہلے حصے شمس الرحمن فاروقی مشاہیر کی نظر میں، کی ذیل میں تین درجن تحریروں میں ن م راشد، غلام عباس، نیر مسعود، ڈاکٹر انور سدید، مبین مرزا، محمد حمید شاہد، عقیل عباس جعفری اور وہاب عندلیب تک کے متاثر کن مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح فاروقی صاحب کے نو عدد انٹرویو، چند خطوط، انتالیس نثری سوغاتیں، اکیس غزلیں، دس نظمیں، چودہ تراجم، بچوں سے متعلقہ دس عدد فن پارے اور بیس رباعیاں شامل ہیں۔ یقین جانیں دَھن کے پجاریوں کے اس عہد میں ایسے دُھن کے پکے لوگوں کے لیے ہم جیسے ادب کے بھوکوں کے دل سے دعا نکلتی ہے۔