Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Column Nawazian

Column Nawazian

مجھے یاد ہے کہ جب میرا کالم اُردو کے دشمن، چھپا تو کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو کی چیئرپرسن ڈاکٹر تنظیم الفردوس، نفاذِ اُردو کی محرک محترمہ فاطمہ قمر اور محترمہ عذرا اصغر نے اس انداز سے داد دی کہ باقاعدہ قلبی سکون محسوس ہوا۔ اقبال کی نظم مکڑا اور مکھی، کی نئی تشریح لکھی تو اس جدید اقبالیات پر بھی کافی واہ واہ ہوئی۔ دانش مر گئی ہے، چھپا تو برادر ڈاکٹر معین نظامی سمیت کئی احباب نے لکھا کہ یہ تو آپ نے ہمارے حصے کا کام بھی کر دیا۔ اسی طرح جب ڈاکٹر خورشید رضوی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی جیسے اساتذہ اور وسیع حلقۂ احباب میں سے کوئی کسی تحریر پر پیٹھ تھپکتا ہے تو بھی بے پناہ تسکین ملتی ہے۔

"شہرمیرے گاؤں کی ویرانیوں کا نام ہے" تو مَیں نے یادوں کے دریچے سے ہر پل جھانکتے ماضی کی دل دادگی کے لیے لکھا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ اپنے دیہات کی تیزی سے مٹتی تہذیب کے لیے ایک پُرسا تھا۔ وہ اپنائیت بھری رہتل جو دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ہاتھ سے پھسل گئی۔ وہ زندگی جس میں ایک ٹھہراؤ تھا، صبر تھا، سلیقہ تھا۔ وہ نیم کے پیڑ کی چھاؤں جو ایئر کنڈیشنڈ کی راحت کو شرماتی تھی۔ وہ سردیوں کی راتوں میں دوستوں کے درمیان جلائی ہوئی آگ جو جل جل کے راکھ ہو جاتی لیکن باتیں ختم نہ ہوتیں، آج وہ آگ، یادوں کی راکھ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ مَیں نے اسی راکھ میں پھونک مار کے کوئی چنگاری تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، حالانکہ غالب دو سو سال قبل اسی طرح کے کسی تجربے میں ناکام ہو کر ہمیں منع کر گئے تھے کہ:

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟ لیکن جب اس کالم کی اشاعت کا محبت بھرا نوٹس لیا گیا، فون آنے لگے، کئی رسائل نے اسے ری پروڈیوس کیا۔ بہت سے احباب کے ساتھ ساتھ محترم طارق چودھری صاحب نے میرا نمبر تلاش کر کے خصوصی شاباش دی تو مجھے لگا کہ یادِ ماضی کی اس بُوٹی نے صرف میرے اندر ہی مُشک نہیں مچایا بلکہ اس سے تو بہت سے لوگوں کی حافظہ اندوز یادوں کے تار چھِڑ گئے ہیں۔ اس پر مرزا محمد معین اللہ خاں صاحب نے تو باقاعدہ تفصیلی خط تحریر کیا، جو انھی یادوں کا ایک تسلسل بھی ہے، اسی خط کا ایک حصہ قارئین کی نذر ہے:

مکرمی ڈاکٹر اشفا ق احمد ورک صاحب!السلام علیکم! آپ کا کالم آج ۲۰۔ ستمبر "شہر میرے گاؤں کی ویرانیوں کا نام ہے" پڑھا۔ مجھے اپنے گاؤں جس کو ہم یہاں کی زبان میں چک کہتے ہیں یاد آ گیا۔ جب میں آج سے اٹھاون سال پہلے وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ سے والد صاحب کی وفات کے بعد چیک ڈپٹی والی کاٹ بہاولنگر پہنچا۔ کالج کی تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر زمیندارہ بہ امر مجبوری کرنا پڑا۔ ہمارا چک پچاس ساٹھ گھروں پر مشتمل گاؤں تھا۔ گاؤں میں دو گھر مستریوں اورترکھانوں کے تھے جو کہ دونوں کام کرتے تھے۔ گاؤں کے آدھے گھر ایک کاریگر کے سیپی تھے اور آدھے دوسرے کے، اتفاق سے دونوں گھرانے اپنا اپنا کام کرتے تھے اور زمیندار اپنے بیل یااونٹ سے خراس پر آٹا پیستے اور مستری کو آٹے کی مزدوری دے دیتے۔ چونکہ ریاست بہاولپور کا علاقہ تھا، زمین مَیرا اور نرم تھی، نر اونٹ یا مادہ جس کو بوتی کہتے تھے، ہل بھی چلاتے اور سواری اور بار برداری منڈی جنس لے جانے کا کام بھی لیتے۔ منڈی کے راستے میں ریت کے ٹیلے بھی آ جاتے جس میں یہ جانور بہت کام دیتے۔

نہری پانی کی وجہ سے فصلیں وافر مقدار میں ہوتیں۔ آپ کی تحریر کے مطابق کاریگروں کی اپنی اپنی چھپر نما دکانیں ہوتیں جہاں لوہے کے اوزار بنانے کے لیے بھٹی ہوتی۔ اورترکھانہ کام کے لیے بھی اوزار ہوتے۔ زمیندار اپنے ہل پھالے درست کرواتے اورکلہاڑی و چھریاں تیز کرواتے درانتی کے دندانے بنواتے اور دیگر کام کرواتے۔ منھ اندھیرے بیلوں کی گھنٹیوں کی آواز آتی اور لوگ اپنے اپنے ہل لے کر کھیتوں میں جاتے اور گیارہ بجے تک ہل چلا کے واپس آ جاتے یہ معمول تو گرمیوں میں ہوتا سردیوں میں جب تک دل چاہتا کام کرتے۔ بھٹو دور تک یہ روٹین چلتی رہی۔ پھر مالکوں اور مزارعوں کے دلوں میں مَیل آتا گیا اور زمیندارہ سمٹنا شروع ہو گیاا ور آج ۲۰۲۰ء میں یہ حال ہے کہ مستریوں کے دونوں گھر غائب ہو گئے ہیں۔ اب گھروں کی تعداد ساٹھ سے کم ہو کے پندرہ بیس رہ گئی ہے۔ مزارعے تقریباً ختم ہو گئے ہیں، جو گھر رہ گئے ہیں۔ ان کا بھی ایک آدھ بیٹا یا بھائی سعودی عرب یا عرب امارات میں چلا گیا ہے یا ایک آدھ فرد لاہور کسی ہوٹل یا دُکان پر کارکن ہے۔ گاؤں میں محنت کرلی یا دو چار ایکڑ کا زمیندارہ رکھ لیا تاکہ جانوروں کا چارہ یا کھانے کے لیے گندم ہوجائے۔ ٹریکٹر آ گئے ہیں۔ بیل نا پید ہو گئے ہیں۔ تیس چالیس نر مادہ اونٹ ہوتے تھے اب ایک بھی نہیں، گھوڑوں کی جگہ ٹرالی آ گئی۔

گندم کی کٹائی کے موقعہ پر تیس چالیس گھر گندم کی کٹائی والوں کے آ جاتے تھے وہ اپنے چھپر وغیرہ بنا کے مہینہ ڈیڑھ رو نق لگاتے تھے۔ وہ رونقیں اورچہل پہل ختم ہو گئی۔ محنت کشوں کا رُخ شہروں کی طرف ہوگیا اور گاؤں کے ساتھ رسمی سا تعلق رہ گیا۔ یہ میں اس گاؤں کانقشہ کھینچ رہا ہوں جو لاہور سے ڈیڑھ سو کلومیٹر بیکانیر انڈیا کے بارڈر زیرو لائن پرہے اور جہاں سے لاہور آنے کے لیے بارہ گھنٹے لگ جاتے تھے۔ دریا میں پانی آ جانے کی وجہ سے بہاولنگر کا تعلق لاہور سے منقطع ہو جاتا تھا۔ ہیڈ سلیمانکی سے چکر لگا کر لاہور جاناپڑتا تھا۔ یہ تو حال ہمارے دور دراز گاؤں کا ہے۔ جو گاؤں لاہور، ساہیوال، اوکاڑہ کے اڑوس پڑوس میں ہیں، ان کے مزار عین و کمیوں کا کیا حال ہوگا؟ و ہ تو کب کے نقل مکانی کر چکے ہوں گے۔ گاؤں ویران ہو گئے اور سارا لوڈ شہروں پر آ گیا۔ گاؤں کے انجنیئر بے کار ہو گئے۔ بیلنے ختم ہو گئے اور زمیندار شوگر ملوں کی لوٹ کھسوٹ میں آ کے گنے کی کاشت تقریباً ختم کر چکے ہیں۔

ہمارا علاقہ کاٹن کا علاقہ تھا۔ مگر کاٹن کے ناقص بیج اور بیماریوں اور جعلی سپرے کی وجہ سے ہر سال کاٹن کی کاشت میں بھی کمی آ رہی ہے۔ حکومت زمیندارہ کی طرف زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتی جس سے زمیندار پریشان حال ہے اور زمین بیچ کر شہروں کا رخ کر رہا ہے اور شہروں میں آکے کھجل خراب ہو رہا ہے۔ اکثر زمینداروں کی اولاد اپنی زمین فروخت کرکے آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکہ کی طرف شفٹ ہو رہی ہے۔

آپ کا کالم پڑھ کر مَیں آج سے پچاس سال پہلے کے دور میں چلا گیا۔ اور اس بڑھاپے میں ان سب چیزوں کے نام پڑھ کر جو کہ آج کی پود کے لیے نا محسوس ہیں دل خوش ہو گیا اور مجھے یہ خط تحریر کرنے پر مجبور کیاکہ آپ کو خراج تحسین ادا کروں کہ آپ کا کالم پڑھ کر پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں جن کو آج کی نسل تو کیا یاد کرے گی ہم جیسے پرانے بڈھے مستفیض ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو زندگی دے اور دعا ہے کہ "اللہ کرے زور قلم اور زیادہ" مزید آپ کا وقت کیا ضائع کروں اس بے معنی تحریر کے بعد خط بند کرتا ہوں۔ والسلام