چند سال قبل کسی حسبِ عادت قسم کے دوست نے وٹس ایپ پر ایک اجنبی شاعر کی مترنم وڈیو ارسا ل کی۔ ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے کہ کسی مروت کے مارے دوست کو کہیں سے بھی کوئی پوسٹ موصول ہوتی ہے تو وہ اُسے خود ڈھنگ سے دیکھے نہ دیکھے لیکن جذبۂ خیر سگالی کے تحت اگلے دوست تک پہنچانے کو وہ عین اپنا فرضِ منصبی جانتا ہے۔ ایسے میں کم ہی کلپس ایسے ہوتے ہیں جنھیں اگلا دوست بھی اول تا آخر سننے یا دیکھنے کا تکلف کرتا ہو۔ اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی وائرل شدہ کلپ آپ کو دس مہربانوں کی طرف سے اوپر تلے عید کی مبارک بادوں کی صورت موصول ہوا ہوتا ہے۔ لیکن اس اجنبی شاعر کی غزل کیا سنی، اُس نے تو حواس و توجہات کو گویا ہَینگ کر کے رکھ دیا۔
غزل کیا تھی؟ پانچ کڑکتی مچلتی بجلیاں تھیں، جنھیں محض قافیہ پیمائی کے شوق میں نہیں، انسانی احساسات کو جھنجھوڑنے بلکہ اُتھل پتھل کرنے کے لیے نہایت تجربہ کاری اور درد مندی سے تخلیق کیا گیا تھا، جس کا ایک ایک لفظ تاثیر، تنویر، تعبیر اور تدبیر سے چھلک رہا تھا۔ مفہوم و معانی، تجربے کی سچائیوں اور تاریخ کی گہرائیوں سے گلے ملتے ہوئے۔ ظالم اور مظلوم کا ایسا دبنگ موازنہ تو ہماری غزل کی استطاعت ہی سے باہر تھا۔ دھمکی کو ایسا خوش گوار پیرایۂ اظہار تو کبھی نصیب ہی نہیں ہوا تھا۔ موازنے میں جیت کے رنگ ڈھنگ کا ایسا نقشہ تو روایت کا حصہ ہی نہ تھا۔ حیرت اس بات پہ بھی تھی کہ پیش گوئی ایسے اعتماد اور تیقن کی متحمل کیسے ہو پائی؟ غزل کا ترنم تھا کہ دل کے ساتھ ساتھ اس کے مضافات میں بھی ترازو ہوا جاتا تھا۔ لہجے میں وہ لوچ اور بیانیے میں وہ وثوق تھا کہ اس اجنبی شاعر کی بابت جانے بغیر رہا نہ گیا۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ شاعر کا تعلق بھارت کی ریاست بھوپال سے ہے، نام منظر بھوپالی ہے اور یہ تمام اشعار بھارت اور عالمی طاقتوں کی مسلم دشمنی کا دل پذیر جوابیہ ہیں۔ ایسا پُر اثر جواب جو ہتھیاروں اور اوزاروں سے بھی ممکن نہیں۔ آئیے پہلے وہ اشعار دیکھیں، جو افغان انقلاب کے بعد سوشل میڈیا پر بھی بہت وائرل ہیں:
طاقتیں تمھاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اِتراؤ، آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے
آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے
عمر بھر تو کوئی بھی جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے تجربہ ہمارا ہے
اپنی رہنمائی پر اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے نقشِ پا ہمارا ہے
غیرتِ جہاد اپنی زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو، دوسرا ہمارا ہے
پندرہ اگست ۲۰۲۱ء کو سب نے دیکھا کہ دنیائے کشمکش اور زمانۂ حرص و ہوس میں بعینہٖ ایسا اوکھا، انوکھا، نرالا، بے مثل اور چونکا دینے والا انقلاب نہایت سُرعت سے وقوع پذیر ہو گیا، جس کے بعد سے اب تک (اور جانے کب تک) تاریخ دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھی ہے۔ تعریف کو زبانیں اور زمانے راستہ نہیں دے رہے۔ سیاسیات کا نک چڑھا، منھ زور علم، عالمی بساط پہ گونگا پہلوان بنا کھڑا ہے۔ دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے خود ساختہ ایشوز پہ چتر چتر کرتا بدلگام میڈیا سچ بولنے کے خوف سے حواس باختہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کانوں پہ رینگنے والی جوں بھی جوں کی توں گم صم ہے۔ بھارت اور شرارت کی راہ پہ گامزن ہمارے بائیں بازو والے ٹائیں ٹائیں کرتے صحافی اور خرافی آئیں بائیں شائیں کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے شاطر کے خطاب کے لفظ لفظ میں سے مسکینی، بے بسی، لاچارگی، ڈھٹائی، خود فریبی، تھکن اور لا یعنیت سنبھالی نہیں جا رہی۔ مال و زر اور دھونس دھاندلی کے بل بوتے پر قائم بڑی طاقتیں سکتے میں ہیں۔ بوکھلائے اور بوندلائے ہوئے یہود و ہنود جیبوں میں مرچیں اور پتھر ڈالے کریدنے کے لیے تازہ زخموں کی تلاش میں ہیں۔
ایسے میں اہلِ سماعت کو عالمی ضمیر کے خراٹوں اور کٹھ پُتلیوں کے فراٹوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ بے حمیت چوروں، مکاروں، موقع پرستوں کا ایک اور ٹولہ، ایک اور اسلامی سرزمین سے غریب عوام کی قسمت کے آثار اور ملکی دولت کے انبار سمیٹ کے کسی نئے حکم نامے کے انتظار میں بہ ظاہر سیکولرزم کے نعرے لگاتا فسادی سامراج کے چرنوں میں جا بیٹھا ہے۔ سازشی عناصر ان بے روزگار ہو جانے والے فتنوں کے لیے کوئی نیا قضیہ کھڑا کرنے کی فکر میں ہیں۔ کابل ایئرپورٹ والا سانحہ اسی مذموم سلسلے کا شاخسانہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مشہور ترکی ڈراما ارطغرل میں ایک عیسائی راہب کی وہ بات رہ رہ کے یاد آ رہی ہے۔ جب وہ راہب اپنے خاص الخاص لوگوں کو مسلمانوں میں انتشار و خلفشار پھیلانے کے لیے قرآن کی سورہ الحجرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے: "عزیزو سنو! قرآن میں مسلمانوں کو باہم اور یکجا رہنے کی بیاسی بار تلقین کی گئی ہے، ہمیں ان کو منتشر کرنے کے لیے اس سے زیادہ حیلے کرنا پڑیں گے!!"
اس افترا پردازی کے دورانیے میں صرف سوشل میڈیا ہی ہے جس پہ کچھ ڈھنگ کی ٹوں ٹاں ہو رہی ہے۔ برادر اسلامی ملک کے حالات و واقعات اور مسائل و وسائل کو زمینی اور زمانی حقائق کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جنرل حمید گل کا دس سال قبل کہا گیا ایک جملہ موجودہ حالات کے چوکھٹے میں نگینے کی طرح چمک رہاہے۔ ساتھ ہی طالبان کی سادگی اور خود اعتمادی زبانِ حال سے شاعر کی زبان سے پکار پکار کے کہہ رہی ہے:
ہم ایسے سر پھرے تھے کہ ہم نے بھی
شہر میں سِکہ امامِ وقت کا چلنے نہیں دیا
ایسے میں سینہ گزٹ کے طور پر معروف ہونے والی ایک ہر وریائی شگفتہ غزل کے مدت سے فراموش شدہ دو شعر بھی شدت سے یاد آ رہے ہیں، جن میں عمران اور افغان کبھی قافیے کے طور پر آتے تھے، اب خاص کیفیت کے ساتھ آ رہے ہیں:
کہا ہم کِرکٹ کھیلیں گے،
کہا تم کِرکٹ کھیلو گے
کہا عمران کا ڈر ہے،
کہا عمران تو ہوگاکہا ہم کابل جائیں گے،
کہا تم کابل جاؤ گےکہا افغان کا ڈر ہے،
کہا افغان تو ہوگا
آخری بات یہ کہ دنیائے باطل جو بھی کہے، یہ صحیح معنوں میں حق سچ کی فتح ہے، دنیاوی رسہ گیروں کے لیے رسوا کُن عبرت ہے، ہماری مغربی سرحد پر سازشوں کے بیج بونے والوں کے ناپاک عزائم کے سینے میں ٹھونکی جانے والی آخری کیل ہے اور مشرقی بدبختوں کے لیے وارننگ ہے، بقول لالہ بسمل:
دنیا پر لرزہ طاری ہے
تذلیل کا عالم جاری ہے
یاں بڑے بڑوں نے بھگتا ہے
اب مُودی تیری باری ہے