Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Khelan Ko Mange Chand

Khelan Ko Mange Chand

ابھی شاعری کے الفاظ کے پیچھے چھپی جذباتیت کی رانی نے دماغ سے دل کی شاہراہ کا رستہ نہیں دیکھا تھا، لفظوں کے بھیتر محض ردیف قافیے کی چھنا چھن متاثر کرتی تھی، یا فلمی اور لوک گیت کے ردھم پہ پاؤں آپ تھرکتے تھے۔ البتہ رفتہ رفتہ سہل آسان شعروں نے کانوں میں ایسا رس گھولنا شروع کر دیا تھا، جو بعض اوقات وجود کی گٹھلی سے پھوٹتی ذوق کی کومل کونپلوں کی نشان دہی کرتا محسوس ہوتا تھا۔ پھر دھیرے دھیرے سُر اور تال کا ملاپ من آنگن میں گھنٹیاں بجانے لگا۔ گیت، تن بدن میں جاگ لگاتے تھے اور سلیقے سے گائے غزل کے اشعار، من آنگن میں آگ? ہوتے ہوتے شاعری نے روح کی سرشاری کا کام سنبھال لیا اور موسیقی سماعت کے لطیف لمحوں کی راز داں بن گئی۔ وقت لطافت کے پر لگا کر اُڑنے لگا۔ کچھ ہی عرصے بعد ایسا لگنے لگا کہ ذوقِ قلبی اور سرور طلبی کو عالم لوہار، شوکت علی، مسعود رانا، نورجہاں، محمدرفیع، لتا منگیشکر کا پرائمری امتحان پاس کرنے کے بعد مہدی حسن، طلعت محمود، غلام علی، فریدہ خانم، نیرہ نور، جگجیت سنگھ کی ثانوی کلاس میں داخلہ مل گیا ہے۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ میر، غالب، فیض، عدم، ناصر، فراز، شکیب اور اطہر نفیس کی لفظی نفاستوں پہ اِتراتے ہوئے حواس کے قدموں کو ایک انوکھی آواز اور اچھوتے کلام نے تھام لیا۔ کسی اور ہی رنگ ڈھنگ کی مغنیہ کی ہمکتی، مہکتی، لچکتی، لہراتی، اِٹھلاتی، بل کھاتی، آواز نے جذباتی دنیا کی خبر بریک کی:انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند، بلکہ اُس طرح نہیں اِس طرح: انوووووووکھا لاااااڈلااااااااااآآا، کھیلن کو مانگے چاااااااااااند ? ایسے مبہوت ہوئے کہ سنتے چلے گئے? ؎

کیسی انوکھی بات رے/تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا/من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا/جی کا حال سمجھ نہیں آتا/کیسی انوکھی بات رے/پیاس بُجھے کب اِک درشن میں /تن سُلگے بس ایک لگن میں /من بولے رکھ لوں نَینن میں /کیسی انوکھی بات رے/جس پہ نہ بیتی وہ کب جانے/جگ والے آئے سمجھانے/پاگل من کوئی بات نہ مانے/کیسی انوکھی بات رے/انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ گانے والی بلقیس خانم ہے اور یہ انوکھا کلام کسی اسد بھوپالی کا ہے۔ مزید کریدنے پر علم ہوا کہ پورا نام اسد محمد خاں ہے، بنیادی طور پر افسانہ نگار ہے، ڈرامے میں بھی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ شاعری تو محض من پرچاوے کا مشغلہ ہے۔ دل میں ہُڑک جاگی کہ یا خدا! جس کا من پرچاوا ایسا ہے، اس کا اصل میدان میں آوا جاوا کیسا ہوگا؟ سچ پوچھیں درشن، نامی اس نظم کے پہلے مصرعے کا ناپ تو ہم سے آج تک نہیں لیا جا سکا۔ سات لفظ، سات سُروں کی مانند چھلکتے ہوئے?سات جہانوں جیسا مفہوم سموئے ہوئے? بظاہر مصری جیسا شیریں مصرع، بباطن تلخی، تُرشی، حسرت سے نچڑتا ہوا? ہمیں تو سمجھ ہی نہیں آ سکی کہ یہ راج ہٹ ہے؟ بالک ہٹ ہے؟ تِریا ہٹ ہے؟ کسی دل جلے عاشق کی تمنا ہے؟ کسی من چلے سیاست دان کی ضد ہے؟ کسی سرمایہ دار کی دھونس ہے؟ کسی بنجارے کا ساگا ہے؟ یا کسی درویش کی صدا؟ پھر مزید دیکھیے کہ کھیل اور کھیلنے کی جگہ کھیلن، کے استعمال نے کیا مُشک مچایا ہے!! اوپر سے درشن کے ساتھ نینن کے قافیے نیز نظم کے مجموعی ہندی رچاؤ نے کیا رنگ جمایا ہے؟

امیر خسرو نے ہند ایرانی تہذیب کے ماتھے پر جو الکھ لگایا تھا، اس کا اظہار آج بھی اُردو اور ہندی شاعری کے انگ انگ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بھارت والے مسلمان دشمنی میں اپنی زبان اور تہذیب کو جو بھی نام دیں، وہ اُردو کے طلسمی دائرے سے باہر نہیں جا سکتے یا ہم اپنے کلچر پہ جتنا چاہے عربی، اسلامی رنگ چڑھانے کی کوشش کریں لیکن ہندی رہتل سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اُردو کے سب سے تاثیر طراز شاعر میر تقی میر کی پوری شاعری اسی پھوار میں بھیگی ہوئی ہے۔ پھر غزل میں ان سے جوگ لینے والے ناصر، فراق، انشا، احمد مشتاق کیسے کانٹا بدل سکتے تھے؟ اُردو نظم میں تو عظمت علی خاں، میرا جی، مختار صدیقی اور اسد محمد خاں کے ہاں تو ہندی کا شیرا بہت ہی گاڑھا ہے۔ پھر بات صرف زبان پہ ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ پورا ہند سماج مع اپنے تاریخی اور دیو مالائی کلچر سانس لیتا دکھائی دیتا ہے۔ ذرا اسد محمد خاں کی نظم رات اور سیتا، پہ نظر ڈالیے:

٭اندھیارے کی کالی میّا مَن کو پھاڑے کھائیں /شمشانوں کے باگھ ڈکاریں، اندھے کنویں بلائیں / پگڈنڈی کے شیش ناگ جی پگ پگ ڈستے جائیں / پیڑ، راکھشش، بادل، راون، گھر، بھُتنے بن جائیں / دھیان کے ِاندر پَتھ پہ بیتی گھڑیاں اُڑتی آئیں / مَیں سیتا بَن باس کو نکلی بِرہا کی اگنی جلاؤ/ آگے آگے رام جی ناہیں، پیچھے لچھمن نائے

یہاں بھی دیکھیے سات مصرعوں میں پوری انسانی تاریخ کا المیہ کشید ہو کے سامنے آ گیا ہے۔ انسانیت کے لاینحل مسائل، کبھی حل نہ ہونے والی سمسیائیں، بھرم، دھرم اور شرم کو پل پل نگلتی کا لی میّا اور زندگی کی راہ میں حائل اندھے کنویں یوں منھ کھولے کھڑے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔ پھر دوسری جانب سُکھ سنیہڑے، سبھاؤ اور شانتی کی یہ صورت بھی ہے کہ ہماری روح سمان لوگ ہمارے پاؤں کے کانٹے پلکوں سے چننے کے لیے تیار ہیں۔ ذرا اس نظم پہ نظر ڈالیے:

٭وندھیا چل کی آتما? مَیں وندھیا چل کی آتما/ مِرے ماتھے چندن چندرما / مِری مانگ سانجھ کی دھوپ / مَیں چِترکار کا انتم چِتر /کلا کا اُتم رُوپ /مِری دھارا کے سب روپ جال / کہیں نربدیا، کہیں کمل تال / مَیں بچھڑوں کا سنجوگ / تری رُوپ متی کا سُکھ سپنا/ ستی کمل پتی کا سوگ / مِرے کیکر سب تِرے گھاؤ سئیں / مِرے پیپل دکھ کی دھوپ سہیں / تِرے گھائل من کو بچائیں / مِرے مور پنکھ، مِرے مِرک نَین / تِری سُونی سبھا سجائیں!!

اسد محمد خاں کی شاعری محض مسائل اور وسائل ہی کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ اس کی خاص بات اس کے اندر سے اٹھنے والی ہُوک، ہِرکھ اور روحوں پہ دستک دیتی چِنتا ہے، وسواس ہے، تاریخ اور تہذیب کا پاس ہے ? نہایت اچھوتا طرزِ احساس ہے۔ مثالیں حاضر ہیں!!

٭اے کسان?گنّا پیلتے ہوئے / رہٹ چلاتے ہوئے / اور گھاس کھودتے ہوئے / ماہیا کیوں گاتے ہو؟ / تم کون سی فری کوئنسی پر زندہ ہو؟ / اور کیا تم ابھی تک مرے نہیں؟ / مرے نہیں ? مرے نہیں ? مرے نہیں؟ / مرے نہیں؟ ? رے نہیں ? نہیں ? ن ?

٭گاربیج کلکٹر? رات کو سونے سے پہلے/ اپنے سارے گیت لکھ لو/ اپنی سب نظموں کا املا ٹھیک کر لو / صبح کو شاید کفن لے کر / مؤرخ رام بابو سکسینہ آئے گا!!

٭نے ٹِو ہوسپٹیلٹی?سرکار! کوئی جان گل کرسٹ آئے ہیں! / بٹھاؤ، پوچھو کیا شوق فرمائیے گا؟ / حضور! کہتے ہیں پولو کھیلوں گا / تو اپنے میر امّن کو بھیج دو!!!

٭سچے لفظ کہاں؟ ? سچے لفظ کہاں چھوڑ آئے؟ / کیا کُرتے میں جیب نہیں تھی؟

٭ کل کہیں ایسا نہ ہو? میرے لفظ اگر تمھیں سنائی نہیں دیتے/ تو مجھ پر ہنستے کیوں ہو؟ / اور مجھے پتھر کیوں مارتے ہو؟ / کل کہیں ایسا نہ ہو/ کہ سماعتیں بحال ہو جائیں / اور یہ زخم تمھیں تکلیف پہنچائیں!!