Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Maa Boli Se Qaumi Zuban Tak

Maa Boli Se Qaumi Zuban Tak

کب سے بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ جن چیزوں کا تعلق ماں سے ہوتا ہے، وہ جیتی جاگتی مجسم دعا، جنت کی ہوا، اصلی والی ماں ہو، دھرتی ماتا ہو یا ماں بولی! کیا ان پہ بھی سمجھوتا ہو سکتا ہے؟ دل، دماغ، ہوش، حواس بلکہ پانچوں حواسوں، جملہ قیاسوں سے ایک ہی مشترکہ اور پکی پِیڈی آواز آتی ہے ?نہیں ں ں ں، ویسے تو ماں اور ماں بولی کا کوئی ایک دن نہیں ہوتا بلکہ ہر دن ہوتا ہے لیکن پھر بھی غنیمت ہیں وہ لوگ، جنھوں نے سال میں کم از کم ایک دن تو اس بات کے لیے بھی وقف کیا کہ آئیں ہم مل جل کے سوچیں کہ ہماری ماں کے مقدس ہونٹوں سے ادا ہونے والے بول کس زبان کا لبادہ اوڑھ کر ہماری سماعتوں کو معتبر کرتے ہیں۔ دو سال قبل اسی تہوار پہ اسی بات کو سوچتے سوچتے میرے قلم و قرطاس پہ اس قطعے کا نزول ہوا۔

کہیں ریشم، کہیں اطلس، کہیں خوشبو رکھ دوں

یہ تمنا ہے تِری یاد کو ہر سُو رکھ دوں

یہ تبسم، یہ تکلم، یہ نفاست، یہ ادا

جی میں آتا ہے تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں

اپنے حکیم جی کا تو دو ٹوک کہنا ہے کہ زبان سے محبت، ایمان سے محبت سمان ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے تو یہ جانور، پرندے بہتر ہیں، جو اپنی ماں بولی سے کسی صورت انحراف نہیں کرتے۔ آپ لاکھ جتن کر لیں، تیتر کو بٹیر کی زبان بولنے پہ مجبور نہیں کر سکتے۔ گدھے کو ساری عمر گھوڑے کی صحبت میں رکھیں، اس کی ہنہناہٹ کا زاویہ نہیں بدلے گا۔ بھینس اپنی تمام تر سستیوں کے باوجود گائے کی مقبولیت سے متاثر ہو کے اس کے لہجے میں ڈکارنا پسند نہیں کرتی۔ لگڑ بھگڑ اپنے عجیب نام اور غریب کاموں کے باوصف کبھی شیر کی نقالی کو اپنا طرۂ امتیاز نہیں بناتا?

ان کے ساتھ ساتھ آج دنیا بھر کے لوگ اپنی زبانوں کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ یہودی، انگریزی میں مہارت رکھنے اور بے پناہ مشکلات اور اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی عبرانی کو بحال کرا کے رہے۔ جاپانیوں نے ایٹمی تباہی کا چرکہ سہنے کے باوجود علاقے کے چودھری سے ایک ہی درخواست کی تھی کہ ان کی زبان اور تہذیب کو ہر گز ہر گز نہ چھیڑا جائے۔ ان کے طنطنے کا تو عالم ہے کہ آپ کو جاپان میں کوئی کاروبار کرنا ہے یا تعلیم کے حصول کی خواہش ہے، پہلے آپ کو ان کی زبان سیکھنا ہوگی۔ اسی زبان اور کلچر کی ہمت کو مجتمع کر کے وہ آج عالمی سبھا پہ خود پردھان بنا بیٹھا ہے۔ دوسری طرف ہمیں انگریزوں اور انگریزی کی صدیوں کی غلامی سے صرف گم نامی ہاتھ آئی ہے، شاعر نے سچ کہا تھا:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

ہم ابھی تک "بے بی ہینڈ واش کرو، ڈور شٹ کرو، نوزی کلین کرو، کمپلیٹ یور ہوم ورک" والی بھونڈی نقل بلکہ حرام زدگی ہی سے باہر نہیں آ سکے۔ ہمیں یہ بھی خبر نہیں کہ اپنی زبان کی شناخت قائم نہ کرنے والے تو دنیا کی بھیڑ میں گم شدہ بچے جتنی اہمیت بھی نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر ہرشندر کور رہنے والی تو چندی گڑھ کی ہیں لیکن طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں، اُن کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے ماہرینِ لسانیات اس بات پہ متفق ہیں کہ جب تک بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم نہیں دیں گے، بچہ ڈگری تو لے لے گا، روزگار بھی کسی نہ کسی صورت ڈھونڈ نکالے گا، شایدکوئی نہ کوئی کاروبار بھی سنبھال لے لیکن وہ کبھی انٹلیکچوئل نہیں بن سکتا۔ اس لیے امریکا میں مقیم غیر ملکیوں کے بچوں کے لیے ان کی مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

باقی رہی یہ بات کہ ہماری مادری زبان پنجابی ہے یا اُردو؟ میرا خیال ہے کہ اس بحث میں الجھنا محض وقت کا زیاں ہے اور سچ بات ہے کہ اس مخمصے یا توتکار کا فائدہ صرف انگریزی نواز حلقوں کو جاتا ہے اور شاید یہ ٹنٹا بھی انھی لوگوں کا کھڑا کردہ ہے۔ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ پنجابی ہماری ماؤں اور پھر ان کی ماؤں کی زبان ہے اور اُردو ہمارے بچوں کی ماؤں اور آگے ان کے بچوں کی ماؤں کی زبان ہے? اسی طرح پورے ملک میں بولی جانے والی دیگر زبانیں بھی بہت محترم ہیں لیکن ان میں اُردو کا امتیاز یہ ہے کہ اس کا دائرہ پورے ملک بلکہ بین الاقوامی سطح تک وسیع ہے، اسی بنا پر اسے قومی زبان کا درجہ دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات تو بہرحال یاد رہنی چاہیے کہ انگریزی ہماری کسی بھی نسل کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی زبان نہ تھی، نہ ہے اور نہ کبھی ہونے کا امکان ہے? انگریزی کا احترام یہی ہے کہ اسے ان اداروں یا طبقات تک محدود رکھا جائے جہاں اس کے بغیر گزارا نہیں۔ مَیں نے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ صدیوں کی غلامی تو رہی ایک طرف، ان تہتر سالوں سے ملک میں لازمی مضمون کے طور پر پڑھائے جانے کے باوجود ہم اس قابل بھی نہیں ہو سکے کہ انگریزی میں ریڑھی والے سے بھنڈیاں خرید سکیں ? یاد رکھیں کہ آپ انگریزی میں بیگم سے شلوار میں نالہ ڈالنے کو کہیں گے تو اِن نالوں کا جواب آسمانوں ہی سے آئے گا۔ آپ خود ہی انصاف کریں کہ ہم جس زبان میں ماں سے لاڈیاں نہیں کر سکتے، باپ سے ڈانٹ نہیں کھا سکتے، دادا سے گالیوں کا مزہ نہیں لے سکتے، وہ ہماری زبان کیسے ہو سکتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں یہ دونوں ہماری مادری زبانیں ہیں، یہی وجہ کہ اوپر زبانوں کے جس تہوار پہ مَیں نے اُردو قطعے کے القا ہونے کی بات کی تھی، اسی دن مجھ پہ اس پنجابی نظم کا نزول بھی ہوا تھا، جسے مَیں نے "ماں بولی" کا عنوان دیا تھا:

ہونا ای انمول جے بِیبا

اپنی بولی بول وے بیبا

کَوڑ کڑتن ودھدی جاوے

پیار پتاسے گھول وے بِیبا

مَیں دنیا نوں کیہ کرنا ایں

تُوں جے ہوویں کول وے بِیبا