Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Saneha Jab Bhi Satata Hai 71 Wala

Saneha Jab Bhi Satata Hai 71 Wala

مختصر سی ملکی تاریخ کی یہ ایک طویل تر تلخ حقیقت ہے کہ آج سے انچاس سال قبل مختلف کرداروں کی سازش سے ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ ان کرداروں کی بابت معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی تصنیف ہم جیتے جی مصروف رہے، کے باب شرحِ بے دردیِ حالات نہ ہونے پائی، میں رقم طراز ہیں:

"شیرِ بنگال مولوی فضل الحق کی قرار داد کے نتیجے میں قائم ہونے والا پاکستان، دو لخت ہو گیا۔ یہ المیہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچا مگر اس ڈرامے کا یہ بڑا کمال بھی تھا کہ ڈرامے کے چاروں بڑے کرداروں میں ایک بھی مثبت کردار نہیں تھا۔ جنرل یحییٰ خاں، ذوالفقار علی بھٹو، شیخ مجیب الرحمن اور اِندرا گاندھی، یہ سارے منفی کردار تھے۔"

قلم کار چونکہ کسی بھی معاشرے کا حسّاس ترین فرد ہوتا ہے جو بالعموم کسی بھی طرح کے ذاتی مفاد سے بالا ہو کر اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر بلا کسی رُو رعایت کے آنسوؤں اور قہقہوں کو سپردِ لوح کر دیتا ہے۔ سولہ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اگر محض ملک سے ملک جدا ہوا ہوتا تو ہم بھی اسے بھائی سے بھائی کے الگ ہونے کی فطری خواہش سمجھ کے شانت ہو جاتے لیکن یہاں تو مسئلہ ہی اور ہے۔ ہم اس واقعے، سانحے یا حادثے کے تناظر میں جب بھی کسی ذمہ دار اہلِ قلم کے ہاں ان خونی مناظر، جنونی غارت گری اور حد سے بڑھی لا قانونی صورتِ حال کا مطالعہ کرتے ہیں تو پورا جسم آنسو بن کے آنکھوں سے بہنے لگتا ہے۔ دو سال قبل ایسا ہی کوئی ادب پارہ پڑھتے پڑھتے نہ جانے کیوں یہ شعر میرے قلم سے ٹپک پڑا:

سانحہ جب بھی ستاتا ہے اکہتر والا

جاگ اُٹھتا ہے وہی درد بہتّر والا

آج جب بھی اس سانحے کا ذکر آتا ہے، پاکستان میں اقتدار کے بار بار چُوٹے، لینے والے اس کا مدعا بڑے آرام سے مکتی باہنی اور ہندوؤں پہ ڈال کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سیاسی مؤرخ جو بھی کہے، آج ہم آپ کو پٹ سن سے مالامال ملک کے حالات ایک ادیب کی آنکھ سے دکھاتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی آبِ گم، میں رقم طراز ہیں:

"۱۹۶۷ء میں ہمیں کار اور فیری سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھے سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا، جس میں اوسطاً پانچ چھے آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطاً بیس میں سے ایک کے پَیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پہ کپڑا نظر آیا، سوائے میّت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے، جن کے کفن کی چادر دو مختلف رنگوں کی لُنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی? بنک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی بیچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لُنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لُنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا? غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنستر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بُغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور پیٹ کی آلائش بھی اسی کنستر میں جاتی تھی ? ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنستر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتاً آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں۔" (ص:۱۶۶)

حال ہی میں انتقال کرنے والے انتہائی محبِ وطن ادیب اور سابقہ بیوروکریٹ جناب مسعود مفتی مئی ۱۹۷۱ء میں سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے تعینات ہو کر ڈھاکا گئے۔ انھوں نے یہ سارا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کی اس زمانے کی ڈائری "لمحے" کے عنوان سے کتاب بنی۔ اس میں وہ مشرقی پاکستان کی تباہ حالی اور اس کے ذمہ داران کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

"تاریکی کی تیسری سطح پاکستانی قوم اور وطن کی سطح تھی۔ اس قوم کو جس نے ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کے مختصر عرصے میں وطن حاصل کیا اور حاصل کرتے ہی بھول گئی کہ کیوں حاصل کیا تھا؟ آگہی سے چلی، ناآگہی میں بھٹک گئی۔ منزلِ مراد پر دم بھر کو رُکی پھر نامرادی کے رستے پر ہو لی۔ راستے میں یقین کی لاٹھی گم کر دی اور مایوسی میں گم ہو گئی، جمعیت پارہ پارہ، کارواں فرد فرد۔ اشتراک کیا تو صرف اتنا کہ سب مل کر قومی مفاد کو دفن کر سکیں ? بہت کیا تو تساہل کو تدبیر کہہ ڈالا اور حماقتوں کو نوشتۂ تقدیر سمجھ لیا۔ رہبروں کی مسلسل خود ستائی، رہروؤں کی مسلسل خود فریبی، رہزنوں کی مسلسل خود نمائی اور راست گوؤں کی مسلسل خود کُشی سے قوم اور وطن ایسے مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں تاریکی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔" (ص:۱۰۲)

صدیق سالک کا شمار ہمارے ان فوجی افسروں میں ہوتا ہے، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا تھا۔ وہ نہ صرف اس سانحے بلکہ اس کے سیاق و سباق سے بھی بہ خوبی آگاہ تھے۔ مسعود مفتی کی طرح وہ بھی بھارت کے جنگی قیدی بنے۔ وہ جو کبھی اس جنت نظیر وادی کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے تھے۔ جب ہمارے سیاسی شاطروں، ہوس پرستوں، نفس کے غلاموں اور اقتدار کے بھوکوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے اس خطے میں نفرت کی ایسی چنگاریاں پھینکیں کہ سب کچھ جھلس کر رہ گیا۔ تو اس کے بعد "ہمہ یاراں دوزخ" کا یہ بیانیہ ملاحظہ ہو:

"سیاسی موسم بدلنے سے گل دستۂ احباب کا رنگ بدلنے لگا۔ بوئے گل، گل سے جدا ہونے لگی۔ ساری فضا یکسر بدل گئی۔ اب شام کی ٹھنڈی ہوائیں سسکیاں بھرتی پاس سے گزر جاتیں۔ زمین نے سبز قالین سمیٹ لیا اور اس کی جگہ خار زار نے لے لی? فضا میں یہ تبدیلی در اصل سیاسی مکدر ماحول کا نتیجہ تھی۔ سیاست کی گرما گرمی میں مشرقی پاکستان سے زیادتیوں کو ہوا دے کر نفرت کی آگ بھڑکائی گئی اور بالآخر: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"

ناصر کاظمی اُردو کے وہ با کمال شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف تقسیمِ ملک کے موقع پر ہونے والی ہجرت کے المیے کو اپنے شعروں میں سمیٹ لیا۔ قوم کا سوگ، اداسی اور حیرانی ان کے شعروں میں ننگے پاؤں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہی اداسی، حیرانی اور سوگ سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد استفسار کا روپ دھار کے ان کے سوگوار قلم سے یوں ادا ہوتے ہیں:

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے؟

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے؟

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟

اس سلسلے کی آخری اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والے حادثے، سانحے، المیے، دھچکے قوموں کی آنکھیں کھول دیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس سے بھی سبق نہ سیکھا جا سکا۔ ایسے میں اپنی قوم کے اذہان پر انور مسعود کے اس قطعے کی دستک دیتے ہوئے اجازت چاہتے ہیں:

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو ہوا گم

کس طرح کا احساسِ زیاں ہے جو بچا ہے

ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے

اِک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے!