Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tufail Ahmed Jamali, Aik Bhoola Bisra Zareef

Tufail Ahmed Jamali, Aik Bhoola Bisra Zareef

2003ء میں پنجاب یونیورسٹی نے میری تمام تر غیر سنجیدگیوں کے باوجود مجھے پی ایچ۔ ڈی کی نہایت سنجیدہ ڈگری عطا کر دی۔ 2004ء میں میرا سات سو صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ "اُردو نثر میں طنز و مزاح" کے عنوان، استادِ محترم پروفیسر عبدالجبار شاکر کی محبت اور کتاب سرائے کے تعاون سے کتابی صورت اختیار کر گیا۔ کتاب چھپتے ہی مَیں نے جل تُو جلال تُو، پڑھتے ہوئے ایک کاپی کراچی میں مشفق خواجہ کو بھی روانہ کر دی۔ واقفانِ حال اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کو کتاب بھجوانا آ بَیل مجھے مار، کے مترادف ہوا کرتا تھا۔ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ تین ہفتے بعدان کا تعریفی خط آ گیا۔ ساتھ ہی ایک فرمائش کی کہ طفیل احمد جمالی ایک فراموش شدہ شگفتہ نگار ہیں، وہ ابنِ انشا اور جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کے ہم عصر تھے، اخبار و رسائل میں نہایت اچھے کالم لکھتے تھے۔ دس اگست 1974ء کو اُن کا انتقال ہو گیا۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اُن کے بارے میں زیادہ لکھا نہیں گیا، اگر لکھا گیا ہے تو کہیں دستیاب نہیں ہے۔ آپ ایک کام کریں کہ قاسمی صاحب سے مل کے طفیل احمد جمالی سے متعلق معلومات اکٹھی کریں۔ (خواجہ صاحب نے کچھ بنیادی معلومات بھی فراہم کیں) مَیں نے قاسمی صاحب سے فوری رابطہ کیا لیکن ان کو کچھ یاد نہ تھا۔ کراچی کے کچھ مزاح نگاروں کو ٹٹولا، لاہور کی معروف لائبریریوں کو کھنگالا، مزاحیہ صحافت پہ ڈاکٹریٹ کرنے والوں کو پُر امید نظروں سے دیکھا، بہت بعد میں مس گوگل کی منت خوشامد کیلیکن لا حاصل۔ پھر 2005ء میں مشفق خواجہ خود سدھار گئے، 2006ء میں جناب قاسمی بھی چلے گئے اور معاملہ رفت گزشت ہو گیا۔

آج پرانے کاغذات کی پھولا پھالی میں مشفق خواجہ کا خط سامنے آ گیا۔ یاد تازہ ہوئی کہ ہمارے اس ظریف کالم نگار کی سینتالیسویں برسی بھی قریب ہے، اس لیے مالک رام کی تذکرۂ معاصرین، اور مشفق خواجہ کے مکتوب سے دستیاب معلومات قارئین کی نذر کرتا ہوں۔

طفیل احمد جمالی کا آبائی وطن الہٰ آباد تھا لیکن 1919ء میں (سانحۂ جلیانوالہ کے زمانے میں) وہ بنارس میں پیدا ہوئے، جہاں اُس زمانے میں اُن کے والد محمد اسحاق مہتمم جیل خانہ جات تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بنارس ہی میں ہوئی۔ 1941ء میں بی اے کا امتحان الہٰ آباد یونیورسٹی سے پاس کیا، یہیں سے لکھنے پڑھنے اور سیاست سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھوں نے دِلّی کی راہ لی اور مختلف ا خباروں میں جز وقتی کام شروع کر دیا، پھر روزنامہ منشور، سے منسلک ہو گئے۔ 1947ء میں کراچی چلے آئے، جہاں ابتداً روزنامہ جنگ، میں کام کیا، بعد ازاں جب میاں افتخارالدین نے روزنامہ امروز، جاری کیا اور اس کا ایک ایڈیشن کراچی سے بھی چھپنے لگا تو چراغ حسن حسرت کی خواہش پر اس میں پہلا درویش، کے قلمی نام سے مزاحیہ کالم لکھنے لگے۔ اس کے ہفتہ وار ایڈیشن کے لیے وہ "گر تُو برا نہ مانے، کے عنوان سے معاشرتی، سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں پر طنزیہ کالم بھی تحریر کرتے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ طفیل احمد جمالی کے یہی طنزیہ ادبی کالم بعد میں مشفق خواجہ کے کالموں کا محرک بنے۔

امروز کا کراچی ایڈیشن بند ہونے کے بعد ہمارے یہ ممدوح فلمی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ معروف فلمی رسالے نگار، کے مستقل قلمی معاون بنے۔ اسی زمانے میں انھوں نے متعدد فلموں کے مکالمے اور گانے لکھے۔ 1957ء میں مجید لاہوری کا انتقال ہوا تو اُن کے مزاحیہ پرچے نمک دان، کا نظم و نسق سنبھال لیا، جس کی بیشتر تحریریں انھی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہوتی تھیں، اس فریضے کو بھی محض دو برس تک ہی نبھایا۔ طفیل احمد جمالی1962ء میں آغاز پانے والے رائٹرز گِلٖڈ، کے بانی ممبران میں بھی شامل تھے، وہ دو سال تک اس کے سیکرٹری بھی رہے، کچھ عرصہ اس کے رسالے ہم قلم، کی ادارت بھی کی۔

1963ء میں وہ روزنامہ انجام، کراچی کے مدیر مقرر ہو گئے، اسی سال روس کا دورہ بھی کیا۔ 1965ء میں ایک سرکاری ادارے نیشنل اِنوَیسٹمنٹ ٹرسٹ، کے افسرِ تعلقاتِ عامہ مقرر ہوئے لیکن یہاں بہ مشکل ایک سال گزارا تھا کہ حکومتِ چین نے ان کی خدمات حاصل کر لیں اور وہ ریڈیو پیکنگ کے رسالے "تصویرِ چین" میں بطور مترجم کام کرنے لگے۔ 1969ء میں وہاں سے بھی واپس آ گئے۔

1970ء میں کراچی سے فیض احمد فیض نے ایک ہفتہ وار پرچہ لیل و نہار، جاری کیا تو اس میں کالم لکھنے لگے لیکن یہ تعلق بھی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا ذاتی ہفت روزہ انقلاب، شروع کیا، اس نے بھی پانچ شماروں کے بعد دم توڑ دیا۔ یاد رہے کہ وہ انجمنِ صحافیانِ پاکستان، کی مجلسِ عاملہ کے رکن بھی تھے۔

طفیل احمد جمالی کو اُردو، انگریزی اور فارسی زبانوں پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ اُردو اور انگریزی میں تو وہ بے تکلف مضامین لکھتے تھے، فارسی گفتگو اور تقریر بھی نہایت روانی سے کرتے۔ انجمن آرا اور انجمن ساز قسم کے انسان تھے۔ ہر وقت دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہنا ان کا وطیرہ بن چکا تھا۔ لا اُبالی پن گویا ان کے خمیر اورخود رائی ان کے ضمیر میں شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بھر پریشاں حالی اور پریشاں فکری کا شکار رہے۔ شادی بھی نہایت تاخیر سے 1962ء میں کی، اور تو اور اپنا ذاتی کلام تک چھپوانے کی زحمت نہیں کی، حتیٰ کہ کوئی بیاض تک بنانے کا تکلف نہیں کیا۔ حافظہ اچھا تھا اس لیے محافلِ یاراں میں اپنی طویل سنجیدہ، مزاحیہ نظمیں، غزلیں بے تکلف سنا دیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں صحافت سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اگست 1974ء میں اس فانی دنیا سے بھی منھ موڑ لیا۔

زندگی میں کوئی کام مستقل بنیادوں پر نہیں کیا، کوئی غزل، مضمون سنبھال کے نہیں رکھا۔ کسی ذمہ داری کو جی کا روگ نہیں بنایا، تنوع اور تلوّن ہمیشہ ان کے مزاج کا حصہ رہا۔ گھر والوں اور احباب نے ان کی اسی متلون مزاجی کے پیشِ نظر، پختہ بنیادوں پر کوئی کام کرنے کی خاطر اُنھیں سیمنٹ کی ایجنسی کھول دی، وہ اس سخت کاری کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا کے ساتھ ساتھ سوگواران میں دو کم سِن لڑکیاں اور بہت سے سوالات چھوڑ گئے۔ سخی حسن دربار قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔

آخر میں جناب مشفق خواجہ ہی کی مختلف رسائل سے جمع کردہ اُن کی تین غزلوں میں سے نمونے کے طور پر دو دو اشعار? ابنِ انشا کی طرح ان کی نثر شگفتہ اور شاعری گھمبیرتا کا رنگ لیے ہوئے ہوتی تھی، ملاحظہ کیجیے:

کسی حسیں، نہ کسی نازنیں کی بات کرو

لہو سے بھیگی ہوئی آستیں کی بات کرو

سیاہیِ شبِ ہجراں کی داستاں چھوڑو

سحر قریب ہے، مہرِ مبیں کی بات کرو

????

باغباں کو مائلِ شر دیکھ کر چُپ ہو گئے

اس چمن میں ہم ہی کیا، سب دیدہ ور چپ ہو گئے

رات اُس محفل میں کس شوریدہ سر کا ذکر تھا

ساز ٹوٹے، راگ بہکے، نغمہ گر چپ ہو گئے

????

داستانِ غم میں لفظِ آسماں رہنے دیا

ایک نکتہ تھا کہ محتاجِ بیاں رہنے دیا

اپنی پلکوں پر چمن کے سارے آنسو لے لیے

گل کو خنداں، بلبلوں کو نغمہ خواں رہنے دیا