یہ امر نہایت خوش کُن ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب عمران خان نے اپنے متعلقین و مصاحبین کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ ان سے متعلقہ ہر طرح کی سرکاری تقاریب میں پاکستان کی قومی زبان اُردو کو پہلی ترجیح کے طور پر استعمال میں لایا جائے۔ اس میں مسرت کا پہلو یہ ہے کہ یہ اعلان کسی گوالمنڈی یا نواب شاہ مارکہ کمپلیکس کا نتیجہ نہیں بلکہ انگریزوں سے اچھی انگریزی بولنے والے ایک ایچی سونین اور کیمبرج پلٹ محبِ وطن کے دل کی پکار ہے۔ ہمارے دل میں تو وہ لمحہ آج بھی فخر بن کے دھڑکتا ہے، جب اسی وزیر اعظم نے سادہ سی شلوار قمیص میں، اس سے بھی سادہ میز کرسی پہ بیٹھ کر ایک پنسل اور نوٹ بک سامنے رکھ کر پوری دنیا کے چاتر میڈیا سے پہلی بار بنا کسی احساسِ کمتری کے اپنی قومی زبان میں خطاب کیا تھا۔
پھر یہ بات بھی خوش آیند ہے کہ وزیرِ اعظم کی دیکھا دیکھی وزیرِ اطلاعات و نشریات نے بھی اسی طریق پر عمل پیرا ہونے کا عندیہ دیا ہے لیکن وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود جو اپنی مضحکہ خیز پالیسیوں کے سبب سکول کے بچوں میں جانے لگے ہیں، کا پرائمری نصاب کو اُردو سے دوبارہ انگریزی میں منتقل کرنے کے عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیرِ اعظم کو وزیرِ چنیں کی اس حرکت کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔
ہمیں یہ بھی پورا یقین ہے کہ وہ مبارک اعلان بھی بہت جلد اسی وزیرِ اعظم کی زبان سے جاری ہوگا، جس کے مطابق پورے ملک کی سرکاری، دفتری، عدالتی، تعلیمی اور امتحانی زبان اُردو ہوگی۔ یقین جانیں وہی دن ہماری حقیقی ترقی کے سفر کا پہلا دن ہوگا۔ وزیرِ اعظم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اور کئی بار اس امر کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک بھی غیر ملکی زبان کی سیڑھی استعمال کر کے نہ تعلیمی اہداف کو حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کی دوڑ میں اس کے قدم مناسب سمت میں اٹھ سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس راست اقدام کے راستے میں ہمیشہ چند ذہنی غلام بیوروکریٹ اور کچھ بے دماغ مفاد پرست حائل ہوتے ہیں، جو فضول طرح کے جواز بنا کے ہر بار اس کارِ خیر میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض بھٹو کے زمانے سے یہی چلا آ رہا ہے کہ ابھی اس زبان میں دفتری اصطلاحات کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں۔ ان کم ظرفوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اُردو ایک ایسی زبان ہے کہ جس نے برِ صغیر کی تاریخ کے ہر دور میں بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور جو نہ صرف پاکستان کے ہر خِطّے بلکہ ہندوستان کے کونے کونے میں آج بھی بولی اور پوری طرح سمجھی جاتی ہے۔ انگریزوں نے اسی بنا پر ۱۸۳۵ء میں اسے ہندوستان کی سرکاری و دفتری زبان قرار دیا تھا۔ بی بی سی اُردو سروس کے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ہندوستان بھر کی طویل سیاحت کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ:
" اُردو زبان کی رسائی تو ہمالیہ کے اس پاررہنے والے ان چرواہوں تک بھی ہوئی ہے جہاں بادل بھی نہیں پہنچتے۔"
انگریزوں کو دو سو سال کے بیوپار اور گہری سوچ بچار کے بعد ہندستانیوں کے دلوں پہ حکومت کرنے کے لیے ایک ہی طریقہ سُوجھا تھا کہ یہاں کی مقبولِ عام زبان ہندوستانی (اُردو) سیکھی اور اپنے کارندوں کو سکھائی جائے۔ ۱۸۰۰ء کو کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔ آخری مغل فرماں روا بہادر شاہ ظفر، کہ جس کی خاندانی، مادری اور سرکاری زبان فارسی تھی، عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آج سے دو سو سا ل قبل اُردو میں شاعری کیا کرتا تھا۔ کوئی اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس خطے کی اصلی، نسلی، کتابی، نصابی زبان اُردو تھی، اُردو ہے اور اُردو رہے گی، باقی سب منھ زبانی باتیں ہیں، مفادات کی گھاتیں ہیں، دھونس ہے، وقت کا ضیاع ہے۔
آج اس حقیقت اور قائدِ اعظم کے چودہ نکات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ برِصغیر کی تقسیم، انگریزوں سے آزادی، ہندوؤں کے شر سے نجات اور اُردوکے تحفظ کے لیے وجود میں لائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ ۱۹۴۷ء ہی کو ہو جانا چاہیے تھا لیکن بد نیتی، عوام دشمنی اور ذہنی غلامی کا کیا علاج؟ ہم آج تک لارڈ میکالے کو منھ بھر بھر کے گالیاں دیتے ہیں حالانکہ ہماری موجودہ صورتِ حال کے ذمہ دار میکالے نہیں، وہ منھ کالے ہیں جنھوں نے آٹھ ستمبر ۲۰۱۵ء میں وطنِ عزیز کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے واضح حکم نامے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔
ہمیں انگریزی کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پوری قوم کو دھونس کے ساتھ انگریزی پڑھانے کا مقصد کیا ہے؟ صرف اتنا کافی ہے کہ انگریزی کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر برقرار رکھیں۔ پھر اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ اب انگریزی کے ہر لفظ کو چمٹی سے پکڑ کے زبان بدر کرنے، یا ہر اصطلاح کا عربی فارسی میں بھونڈا ترجمہ کرنے کی حماقت کو نہ دہرایا جائے۔ کمپیوٹر کو ممکن گر اور کیلکولیٹر کو شمارندہ بنانے کی مضحکہ خیزی سے باز رہا جائے۔ کیمسٹری کو کیمیا، فزکس کو طبیعات اور بیالوجی کو حیاتیات میں بدلنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اب اس بہانے کے غبارے میں مزید ہوا بھرنے کی ضرورت نہیں کہ اُردو میں دفتری اور تعلیمی نظام چلانے کے لیے مناسب کتب موجود نہیں۔ یہ بات دعوے سے کہی سکتی ہے کہ آپ آج تمام چھوٹے بڑے امتحانات، عدالتی کارروائی دکانوں کی رسیدیں، دفتری مراسلات اُردو میں کرنے کا حکم جاری کریں، ایک ہفتے کے اندر اندر متعلقہ کتب اور مطلوبہ مواد کا ڈھیر لگ جائے گا۔ بقولِ شاعر:
رانجھا تخت ہزاریوں ٹُرے تے سہی
پَیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آؤندا اے!