Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Deeniyat Aur Ikhlaqiat

Deeniyat Aur Ikhlaqiat

ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ہم بحیثیت مجموعی عبادات کی طرف راغب قوم ہیں۔ یہاں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اپنے اپنے عقائد کے مطابق رسوم عبادات کا خوب اہتمام کرتے ہیں۔ بعض لوگ میلاد کی تقریبات زور و شور سے مناتے ہیں، کچھ سیرت کانفرنس کا اہتمام کرتے ہیں اور ہم سے کچھ لوگ اہلِ بیت اور آئمہ اطہار کے ایام منانے میں خصوصی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔

ہماری مساجد بحمدللہ نمازیوں سے خالی نہیں رہتیں۔ جمعہ کے خطبات میں مواعظ حسنہ سننے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں۔ ہم نے کبھی غور نہیں کیا کہ اس قدر شد و مد سے عبادات کا اہتمام کرنے کے باوجود ہمارے مجموعی کردار میں وہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی، دین اور اہلِ دین جس کی توقع کرتے ہیں۔ بزرگوں کے اعراس میں شرکت کرنے والے، خانقاہوں کے زائرین وظائف و اوراد کرنے والے احباب بھی کردار کی وہ خوبی نہیں نبھا پاتے جسے دین کی ایک نمائندہ خوبی سمجھی جاتی ہے۔

بحمدللہ! حج اور عمرہ زائرین کی تعداد روز افزوں بڑھتی جا رہی ہے، ہر سال تقریباً پچیس لاکھ افراد میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں، اپنے گزشتہ گناہوں پر توبہ کرتے ہیں، آیندہ کے لیے بہتر زندگی گزارنے کا عہد باندھ کر واپس آتے ہیں۔ اسی طرح عازمین عمرہ کی مجموعی تعداد بھی سال بھر میں کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے، لیکن بڑے دکھ کے ساتھ یہ بیان کرنا پڑتا ہے کہ اسلامی ملکوں میں اخلاقیات کا انڈیکس اوسط درجے سے کہیں نیچے دیکھنے کو ملتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم نے عبادات کو فرض عین سمجھا ہے اور اخلاقیات کو فرض کفایہ۔ اخلاقیات کے تقاضوں پر پورا نہ اترنے پر ہم خود کو اس طرح قابل تعزیر نہیں سمجھتے، جس طرح کوئی عبادت چھوٹ جانے پر ہم خود کو قابل سزا تصور کرتے ہیں۔ ہمارا ضمیر عبادات کے پامال ہونے پر چیختا ہے لیکن امانت، دیانت اور صداقت میں کمی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں ناکافی ٹھہرتی ہے۔

ہمارے ہاں صوم و صلوٰۃ کی پابندی نہ کرنے والا اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن وعدہ وفا نہ کرنے والا، جھوٹ بولنے والا، تجارت میں دھوکہ دینے والا ہماری نظر میں کچھ ایسا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ایک مسلمان کو اگر سامانِ تجارت کی ضرورت ہو تو وہ اپنے مسلمان بھائی کے بجائے کسی غیر مسلم کی کمپنی سے معاہدہ کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ یہی حال چھوٹے چھوٹے فوڈ چینز کا ہے۔

ہم میکڈونالڈ اور کے ایف سی کا بائیکاٹ تو کرتے ہیں لیکن ان سے بہتر فوڈ کوالٹی دینے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ہم کوئی مشروب یا فوڈ پراڈکٹ لانچ کرتے ہیں اور جب ہماری یہ پراڈکٹ معروف ہو جاتی ہے تو ہم اس کی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ گویا ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دینی جذبات کیش کرنے میں ذرا بھی نہیں چوکتے۔ ہم اپنے شہد کو اسلامی شہد کہہ کر بیچ رہے ہیں، اسی طرح کھجور بیچنے کے لیے بھی حدیث کا سہارا لیتے ہیں۔

عمرہ و حج زائرین کو لوٹنے میں بھی ہم یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اللہ معاف کرے، مدینہ منورہ میں عین صحن حرم میں زائرین سے غلط بیانی کرتے ہوئے ہمیں ذرہ برابر احساس ندامت نہیں ہوتا۔ منیٰ اور عرفات، وہ خاص مقامات جو عبادت اور صرف عبادت کے لیے وقف ہیں، وہاں بھی ہم نے تجارت کرنے کے نت نئے ڈھونگ ایجاد کر رکھے ہیں۔ مانا کہ حج میں تجارت جائز ہے، لیکن تجارت میں اندھا دھند منافع بھی کیا جائز ہے؟ کیا تجارت کی اجازت میں ہمیں بے خبر زائرین کا استحصال کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے؟

عبادت اگر حقوق اللہ میں شامل ہے تو خدمت اور اخلاقیات حقوق العباد کا باب ہے۔ ہم واضح طور پر جانتے ہیں کہ حقوق اللہ کی معافی موجود ہے لیکن حقوق العباد کی معافی نہیں، جب تک کہ وہ شخص جس کا حق سلب کیا گیا ہے، وہ معاف نہ کر دے۔ عبادات میں زیادتی، اخلاقیات میں کمی کا کفارہ نہیں۔ ممکن ہے، اس کے برعکس درست ہو۔

ایک لامذہب شخص اگر کسی بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو کچھ تعجب نہیں، کیونکہ وہ کسی ضابطہ اخلاق کو مانتا ہی نہیں۔ وہ صرف ملکی قانون کے ڈنڈے کے تابع ہے، جہاں قانون نرم ہو، وہاں وہ فائدہ اچک لیتا ہے۔ اِس کے عکس وہ شخص جو ایک دینی ضابطہ حیات کو مانتا ہے، اگر حقوق العباد کی خلاف ورزی کرے، جھوٹ کہے، خیانت کرے، غصہ اور غرور کرے، مخلوق خدا کا استحصال کرے، وہ دین کی بد نامی کا باعث بنتا ہے۔

دین کا ایک متلاشی کسی ایسے شخص کا کردار دیکھ کر دین سے بدک جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے، اگر دین یہی اخلاقیات سکھاتا ہے جیسی ہم اس شخص میں دیکھ رہے ہیں، تو ہم ایسے ہی بھلے! وہ سوچتا ہے، ہمارے ہاں کسی دینی ضابطے کو تسلیم کیے بغیر بھی نسبتاً بہتر اخلاقی اقدار موجود ہیں۔ غور کریں، اخلاقیات سے دوری کس قدر بڑا اور بھیانک جرم ہے۔ ہم اخلاقیات سے دور ہو کر، پوری دنیا کو دین سے دور کر رہے ہیں۔

بجائے اِس کے، کہ ہم اپنے کردار کی پختگی سے اپنے دین کا تعارف کرائیں، ہم کردار کی کمزوری سے دین کو رسوا کر رہے ہیں۔ ایک دور تھا، جب مسلمان تاجروں کے کردار میں اتنی پختگی ہوا کرتی کہ وہ مشرق بعید میں اسلام کے پھیلنے کا سبب بن گئے۔ مقامی لوگ جب ان کے کردار میں امانت، دیانت اور ایفائے عہد کا جوہر دیکھتے تو اسلام کی حقانیت کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن بھی وہی، حدیث بھی وہی اور سب کے سب معاملات دین بھی وہی، پھر ہمارے کردار میں آخر پہلے ایسی پختگی کیوں نہیں؟ ضرور کہیں نہ کہیں، کوئی فکری تخریب کاری ہوئی ہے۔ دینی فکر کا سپر سانک جہاز کہیں ہائی جیک ہوا ہے۔ دینی فکر کا رخ معاملات سے ہٹا کر فقط عبادات کی طرف لے جانے میں ہمارے مبلغین کی شعوری یا غیر شعوری غلطی کا دخل ہے۔ ہمارے مبلغین آخر اس بات پر زور کیوں نہیں دے سکے کہ ایک اچھا انسان ہی اچھا مسلمان ہوتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان بننے کے لیے اچھا انسان بننا ضروری ہے۔

ہمارے مبلغین اپنے سامعین و معتقدین کو یہ کیوں نہیں بتا سکے کہ حدیث مبارکہ میں مسلمان کی تعریف یہ ہے: "وہ شخص مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہیں"۔ ہمارے واعظین مساجد میں یہ حدیث کیوں نہ یاد کرا سکے: "جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان ہی نہیں، اور جس شخص کا عہد نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں"۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں مساجد موجود ہیں اور ہمارے تاجر حضرات نمازی بھی ہیں، جمعہ تو ضرور پڑھتے ہیں۔ وہاں مساجد میں رسول کریمﷺ کا یہ فرمانِ عالی شان کیوں نہیں بتایا جاتا: "جس نے دھوکہ دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے"۔

مزدوروں کے حقوق پر بات کیوں نہیں کی جاتی؟ تاجروں اور آجروں کو یہ حکم رسولﷺ آخر باور کیوں نہیں کرایا جاتا: "مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو"۔ یہ حدیث کیوں نہیں بتائی جاتی: " کوئی شہری کسی دیہاتی کا آڑھتی (مڈل مین) نہ بنے"۔ اس حکم کا پرچار کیوں نہیں کیا جاتا: "سودے پر سودا نہ کرو، جب تک کسی چیز پر ملکیت نہ ملے، اسے آگے مت بیچو"۔

بچے بچے کو یہ حدیث یاد کرائی جانی چاہیے: "مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے، جو اپنے لیے پسند کرتا ہے"۔ اگر یہ بنیادی دینی اخلاقیات از بر کرا دی جائیں تو ہمارا معاشرہ ظلم، استحصال، ناجائز منافع خوری سے پاک ہو جائے۔ جس طرح مسلم معاشرے میں معاشی استحصال کی کوئی گنجائش نہیں، اسی طرح ایک مسلم معاشرے کی سیاسی اخلاقیات میں آمریت کا کوئی تصور نہیں۔ آمریت روح دین کے منافی ہے۔ دین "وامرھم شوریٰ بینھم" کا حکم دیتا ہے۔ دین، جابر حکمران کے سامنے کلمہِ حق کہنے کو افضل ترین جہاد قرار دیتا ہے۔

دینیات کو اخلاقیات سے جدا کرنے والے دین کے خیر خواہ نہیں۔ روح دین اخلاق اور اخلاص ہے۔ اخلاق سے محروم عبادت مجموعہ رسومات ہے۔ اخلاص سے محروم عبادت منافقت ہے۔ مدعائے عبادت اگر قرب خالق ہے تو خالق کا قرب مخلوق کی عزت اور خدمت میں ہے۔ اخلاق مخلوق خدا کی عزت افزائی کا بہترین طریقہ ہے۔ اخلاص قرب حق کا محفوظ ترین راستہ ہے۔