Qaidion Ki Bhi Fikar Kijiye
Dr. Hussain Ahmed Paracha313
زنداں کے ساتھیوں نے قید خانے میں حضرت یوسفؑ سے خوابوں کی تعبیر پوچھی جو آپ نے وضاحت و صراحت کے ساتھ بتا دی۔ پھر قرآن کے الفاظ میں سنیے کہ حضرت یوسف نے کیا فرمایا۔ پھر ان میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا۔ اس سے یوسف علیہ السلام نے کہا"اپنے رب(شاہ مصر) سے میرا ذکر کرنا مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے رب(شاہ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھول گیا اور یوسفؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا۔ موت کا ذائقہ تو ہر انسان نے چکھنا ہے مگر پاکستان میں تقریباً ہر سیاست دان جیل کی مہمان نوازی کا ذائقہ بھی ضرور چکھتا ہے۔ جب یہ سیاست دان جیل میں ہوتے ہیں تو فرق من وتو مٹا دیتے ہیں۔ قیدیوں اور مشقتیوں سے برابری کی سطح پر گفتگو کرتے ہیں ان کا دکھ درد بانٹتے ہیں۔ ان کی مدد کرنے کے بارے میں قول و قرار کرتے یں اور جیلوں کی اصلاحات کے لئے انقلابی اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہیں مگر جب رہا ہو جاتے ہیں تو اکثر حضرت یوسفؑ کے زندانی ساتھی کی طرح بھول جاتے ہیں۔ اس وقت کرونا وائرس نے ساری سرحدیں اور ساری رکاوٹیں عبور کرکے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں قیدیوں کے لواحقین نے بھر پور احتجاج کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ کرونا وائرس کے شدید خطرے کے پیش نظر قیدیوں کو رہا کیا جائے اس حوالے سے پاکستانی جیل خانوں میں قیدیوں کی حالت زیادہ دگرگوں ہے۔ پاکستانی جیلوں میں قیدی گنجائش سے کہیں زیادہ بھرے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی 114جیلوں میں 80ہزار قیدی ٹھسے ہوئے ہیں بلکہ ان قید خانوں میں زیادہ سے زیادہ 50ہزار کی گنجائش ہے۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق پاکستانی جیلوں میں اوسطاً 80فیصد ایسے قیدی ہوتے ہیں جن کے مقدمات مہینوں اور سالوں تک شروع ہی نہیں ہوتے اور وہ جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔ ہماری جیلوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے حفظان صحت اور صفائی کا نظام بھی انتہائی ناقص۔ الا ماشاء اللہ اکثر جیلوں کے ہسپتال محض نمائشی شفاخانے ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواتہ جیلوں میں کرونا پھیل گیا تو یہ جان لیوا ثابت ہو گا۔ بعض سینئر وکلا کی رائے میں اگر ریاست چاہے تو وہ 80ہزار قیدیوں میں سے کم از کم 40ہزار کو رہا کر سکتی ہے۔ مگر یہ رہائی کیسے عمل میں آ سکتی ہے؟ جہاں تک معمولی جرائم کا تعلق ہے تو ریاست پیرول پر بہت سے قیدیوں کو رہائی دے سکتی ہے۔ البتہ عدالت میں زیر سماعت مقدمات میں تو مجاز عدالت ہی ضمانت لے سکتی ہے یا ہائی کورٹ بھی ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔ صدر مملکت کے پاس بھی قیدیوں کی رہائی کے لئے آئینی اختیارات ہیں۔ آج کے ہی اخبارات میں محکمہ جیل خانہ جات پنجاب نے 250معمولی نوعیت کے قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 400قیدیوں کی رہائی کے لئے عدالتی طریق کار اختیار کرنے کا حکم دیا تھا تو اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح سے حکومت نے کرونا وائرس کے مقابلے میں سست رفتار، مہم اور منتشر انداز میں اقدامات کئے اسی طرح سے قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بھی سست رفتاری سے کام لیا جا رہا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت چاروں صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک قومی کمیٹی تشکیل دیتی باہمی مشاورت زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کی رہائی کو یقینی بناتی۔ اگر اس معاملے میں یہی چیونٹی کی رفتار سے کام لیا گیا تو خدانخواستہ ہمیں جیلوں میں بڑے انسانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب ذرا ہزاروں کی تعداد میں ان کی کشمیری قیدیوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیے جو بھارت کی دور دراز جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں۔ ان قیدیوں میں پھول سے بچے، نوجوان، اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ، وکلاء صحافی اور کشمیری رہنما شامل ہیں۔ ان قیدیوں کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کے خاندانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پیارے کس جیل میں اذیت کے شب و روز گزار رہے ہیں اور کسی بھی لمحے وہ کرونا کی وبا کا بھی شکار ہو سکتے ہیں۔ یاسین ملک اور آسیہ اندرابی جیل میں ہیں، جہاں ان پر کالے قوانین کے تحت سوفیصد جھوٹے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ مقبوضہ و وادی کشمیر کے 80لاکھ کشمیری بدترین قسم کے قید خانے میں مقید ہیں۔ ان کشمیریوں میں کرونا وائرس کے کئی مصدقہ کیسز سامنے آ گئے ہیں۔ اس وقت تک کرونا وائرس سے مقبوضہ وادی میں دو کشمیریوں کی موت بھی واقع ہو چکی ہے۔ گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نے ریڈیو خطاب کے ذریعے اپنی قوم سے 21روزہ لاک ڈائون پر معافی مانگی اور کہا کہ یہ تکلیف دہ قدم ناگزیر تھا۔ میرا خیال تھا کہ وبا کے خوف سے شاید مودی کے ضمیر میں کوئی جنبش پیدا ہو گئی ہو اور وہ 21روزہ لاک ڈائون پر معافی مانگتے ہوئے 239روز سے جاری کشمیریوں پر مسلط بدترین لاک ڈائون پر ان سے بھی معافی و معذرت کا طلب گار ہو گا۔ مگر ایسی خوش نصیبی مودی جیسے سنگدل کے نصیب میں نہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے روتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی جیلوں میں کرونا کے پھیلنے کی ہولناک خبریں آ رہی ہیں ان حالات میں ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں عافیہ صدیقی کو اسی وباء کے پردے میں موت کی وادی میں نہ دھکیل دیا جائے۔ حکومت بلاتاخیر کچھ کرے۔ اسلام آباد سے ایک دل درد مند رکھنے والے دوست شاہد شمسی نے فون پر کہا کہ میں کالم لکھنے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ماں سے بات کر لوں میں اس سے قبل ان سے کئی بار بات چیت کر چکا ہوں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ سے جب کبھی بات ہوتی تو ان کی آہیں اور سسکیاں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں اور ادھر میری آنکھوں سے بھی آنسوئوں کی برسات جاری رہتی ہے البتہ اس مرتبہ مجھے ایک دکھی ماں سے بات کرنے کا بالکل یارا نہ تھا۔ عمران خان کی حکومت قیدیوں کی فکر کرے اور کان لگا کر ان کی پکار سنے ؎قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا