یہ 23 اپریل 2019ء کا دن ہے۔ بلوچستان کے علاقے چمن میں چند روتے بلکتے لوگ ایک میت کو چارپائی پر رکھے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ میت تو ایک شہید کی ہے۔ ایک ایسے شہید کی جس نے قوم کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی تو پھر یہ آہ و فغاں کیسی یہ رونا دھونا کیسا؟ یہ آہ و فغاں ہماری قومی بے حسی پر ہے۔ دو لیڈی پولیو ورکرز23 اپریل 2019ء کو اپنا مقدس فرض ادا کرنے نکلیں۔ وہ گھر گھر دستک دے کر پھول سے بچوں کو زندگی بھر کی معذوری سے بچانے کے لئے پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں۔ اچانک سنسنائی گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ ایک 35سالہ پولیو ورکرز نسرین موقع پر ہی رتبہ شہادت پا گئی اور دوسری جواں سال ورکر رشیدہ شدید زخمی ہو گئی۔ اس شہید خاتون کی میت تو قومی پرچم میں لپٹی ہونی چاہیے تھی۔ اسے تو باقاعدہ سلامی دی جانی چاہیے تھی۔ اس کو اعزاز کے ساتھ دفنایا جانا چاہیے تھا لیکن کس کس بات کا رونا رویا جائے۔
دوسرا منظر 29 جنوری 2020ء کا ہے اور مقام ہے صوابی خیبر پختونخواہ یہاں بھی دو لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پولیو کے قطرے پلانے سے روکنے کے لئے وحشیانہ گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بیچاری بچی تو موقع پر ہلاک ہو گئی اور دوسری ورکر شدید زخمی ہو گئی۔ جسے ہسپتال پہنچایا گیا۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز پولیو ٹیم کو لے جانے والی پولیس وین کو ڈیرہ اسماعیل خان میں نشانہ بنایا گیا۔ ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا اور ہیڈ کانسٹیبل ریاض موقع پر شہید ہو گیا۔ مزید حملوں میں لاڑکانہ میں لیڈی پولیو ورکر اور موسیٰ خیل میں ایک ورکر زخمی ہوا۔ ورلڈ نیوز کے مطابق 2012ء سے لے کر اب تک پاکستان میں ایک سو کے قریب پولیو ورکرز شہید ہو چکے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان شہدا کے نام کیا ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اتنے عظیم مقدس فریضے کی انجام دہی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر جرأت و شجاعت کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والوں کو ہماری حکومتوں یا قوم نے کیا اعزاز دیا ہے۔ ہمیں تو قوم کے ان محسنوں اور شہیدوں کے نام تک معلوم نہیں۔
پولیو کیا ہے؟ 1840ء میں پہلی مرتبہ اسے ایک بیماری تسلیم کیا گیا۔ اس بیماری میں ریڑھ کی ہڈی اور نظام تنفس مفلوج ہو جاتا ہے۔ 19ویں صدی میں یہ مرض وبا کی صورت میں امریکہ و یورپ میں پھیلا۔ 1916ء میں نیو یارک میں پولیو کے 9000کیس سامنے آئے۔ 1952ء میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ پولیو کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی تھی۔ جب پچاس ہزار سے اوپر کیس امریکہ میں ریکارڈ کئے گئے اسی سال ڈاکٹر جوناس سالک کو پولیو کے علاج میں بڑی کامیابی ملی پھر 1961ء میں البرٹ سبین نے پولیو کی ویکسین قطروں کی شکل میں دریافت کر لی۔ 1982ء میں برطانیہ پولیس سے مکمل طور پر پاک ہو چکا تھا جبکہ امریکہ، آسٹریلیا اور یورپ 1988ء میں پولیو فری قرار دیے گئے تاہم پھر ایک کیس امریکہ میں سامنے آ گیا۔ بہرحال حتمی طور پر عالمی ادارہ صحت نے امریکہ کو 1994ء میں پولیو سے مکمل طور پر پاک قرار دے دیا۔ عالمی کوششوں کے نتیجے میں اس وقت ساری دنیا پولیو سے محفوظ ہو چکی ہے۔ سوائے تین ممالک کے۔ ان ممالک میں پاکستان، افغانستان اور نائجیریا شامل ہیں۔ دنیا کی ساتویں اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ناخواندگی کو ختم کر سکی ہے نہ پولیوکو اور نہ ہی جہالت کو۔ ہمارے حکمران بالغ نظری کا ثبوت دیتے تو اس عظیم وطن کو اقتصادی و جمہوری قوت بنا چکے ہوتے مگر ہمیں تو آپس میں لڑنے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ون مین شو کی کرشمہ سازی سے ہی فرصت نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے 2000ء میں دنیا کو پاک کرنے کا جو ہدف مقرر کیا تھا۔ اسے ہم آجحاصل نہیں کر سکے اور 2020ء میں پاکستان میں پولیو کے 144کیس سامنے آ چکے ہیں۔ معاملہ مہنگائی کا ہو یا پولیو کے خاتمے کا ہو حکمرانوں کے پاس صرف ایک جملے کا کوڑا ہے جسے وہ موقعہ بے موقع ہوا میں لہراتے رہتے ہیں۔ وہ جملہ ہے "ہم آخری حد تک جائیں گے" میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ آخری حد ہے کیا؟ حکمران بھی وہی ہیں، مشکلات بھی وہی ہیں۔ مصائب بھی وہی ہیں۔ اور آخری حد بھی وہی ہے۔
موت اور معذوری میں بس ذرا سا ہی فاصلہ ہوتا ہے۔ مجھے آج بھی اپنے نہایت عزیز دوست حافظ محمد سعید ایڈووکیٹ مرحوم کی پھول سی بچی کا چان سا چہرہ اورپولیو زدہ ٹانگ یاد آتے ہیں تو میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ پاکستان کو 1974ء میں پولیو کے بارے میں آگاہی ملی۔ 1994ء میں پولیو وائرس کو نیست و نابود کرنے اور پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کے بھر پور مہم کا آغاز کیا گیا۔ مگر ابھی تک ہمیں سو فیصد کامیابی نہیں ملی۔ گزشتہ دو تین روز سے پولیو کے خلاف زور شور سے مہم جاری ہے اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور پولیو ورکرز اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر شہروں اور دیہاتوں میں ہی نہیں دور دراز سنگلاخ آبادیوں میں بھی جا رہے ہیں اور یہ مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
بعض سنگدل کسی فقہی موشگافی سے کام لے کر یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ پولیو ورکرز کی ناگہانی موت شہادت ہے یا نہیں۔ شہادت کی دو قسمیں ہیں ایک حقیقی اور ایک حکمی۔ حقیقی شہید وہ ہوتا ہے جو اللہ کے راستے میں قتل کیا جاتا ہے یا کوئی ظالم اسے ناحق موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور احادیث کے مطابق حکمی شہید وہ ہوتا ہے جیسے ڈوب کر مرنے والا، کسی وبا میں ہلاک ہونے والا یا کسی حادثے میں لقمہ اجل بننے والا وغیرہ۔ قومی و انسانی خدمت انجام دیتے ہوئے ناحق قتل ہونے والے ورکرز تو حقیقی شہدا کے زمرے میں آتے ہیں۔ کہ وہ مردہ نہیں زندہ رہتے ہیں۔ قوم پولیو کے خاتمے کا مقدس فریضہ انجام دینے والوں کو کوئی اعزاز دے یا نہ دے مگر ان شہدا کی طرف سے وہ پیغام غور سے سن لے جو انہوں نے ایمان ملک کے الفاظ میں دیا ہے:
زندگی ہمیں بھی تھی پیاری/کیوں ہم ابدی نیند سو گئے/سوال تھا اس دیس کے مستقبل کا/اس کے ننھے پھولوں کے روشن کل کا/لہو کو ہمارے مت بھول جانا/کہانی ہماری آنے والی نسلوں کو سنانا