ایک غلطی ہم کر چکے ہیں، دوسری غلطی کی گنجائش نہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں مقیم طب کی دنیا میں شہرت یافتہ پاکستانی امریکن ڈاکٹر سے کورونا کی تباہ کاریوں کے بارے میں تفصیلی بات ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے نہایت دردمندی اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پاکستان میں ہمارے پاس ضائع کرنے کو دن تو دور کی بات گھنٹے بھی نہیں۔ اگر خدانخواستہ اس وقت لمحوں نے خطا کی تو ہمیں اس کا ناقابل تلافی خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ عرض کیا ڈاکٹر صاحب حل کیا ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فوری ایکشن ماہر طبیب کی رائے میں پاکستان میں کورونا کو کنٹرول کرنے کے لئے ہمیں فی الفور دو نکاتی فارمولے پر عمل کرنا ہو گا۔ مکمل لاک ڈائون اور زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیلی حساب کتاب لگاتے ہوئے بتایا کہ اگر کورونا کے شکار کسی فرد کو معمولات زندگی کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ اکیلا57,000 افراد تک یہ جان لیوا بیماری منتقل کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ماہرانہ تجاویز کے بارے میں دوسری رائے لینے کے لئے میں نے امریکہ میں دو پاکستانی ماہرین سے پٹس برگ اور ڈیلس میں رجوع کیا۔ ان کی رائے بھی ڈاکٹر صاحب جیسی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے یہاں امریکہ میں اسی کنفیوژن میں کئی ہفتے ضائع کر دیے جس کا اب امریکہ کو خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
حکومت کی سطح پر کنفیوژن کیا ہے؟ کنفیوژن یہ ہے کہ مکمل لاک ڈائون کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ اس موذی مرض سے گھبرانا ہے یا نہیں گھبرانا۔ ٹیسٹ کرنے ہیں یا نہیں کرنے اور سب سے بڑا کنفیوژن یہ ہے کہ جناب وزیر اعظم اتنی ہولناک عالمی وبا کو پاکستان میں صرف ایک جماعتی اور محض حکومتی مسئلہ سمجھنے پر مصر کیوں ہیں؟
یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کی سٹیک ہولڈر ہر جماعت، ہر ادارہ، ہر سیاست دان حتیٰ کہ ہر امیر غریب ہے جناب وزیر اعظم کو اللہ نے ریاست مدینہ میں اجتماع امت اور قومی قیادت کا جو سنہری موقع عطا کیا ہے وہ یہ اہم قومی ذمہ داری ادا کرنے سے گریزاں کیوں ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وبا کا بوجھ بھاری ہے جسے اٹھانا اکیلی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے وہ اس مشکل کے وقت حکومت کی دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہے۔ جناب وزیر اعظم آگے بڑھ کر یہ حسن تعاون قبول کیوں نہیں کرتے۔
ہم سیاست سے ماورا ہو کر بصد ادب عرض کریں گے کہ یہ وقت خیالی نہیں عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ ٹائیگر فورس کی تشکیل اس کی رجسٹریشن اور تربیت کے لئے وقت درکار ہے جبکہ تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا ہمیں مزید وقت پر تیار نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہو گی کہ تاتریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مردہ شود۔ پہلی غلطی یہ تھی کہ وائرس کی ہولناکیوں کے جاننے کے باوجود فروری تک زمینی سرحدوں سے اور ہوائی اڈوں سے بیرون ملک سے آنے والوں کو کسی شدید چیکنگ اور سیکننگ کے بغیر آنے دیا گیا ہے ہزاروں کی تعداد میں ہر مریض اس وقت تک نہ جانے مزید کتنے ہزاروں تک یہ ہماری منتقل کر چکے ہیں کنفیوژن اور تاجر ہماری دوسری غلطی ہو گی جس کی ہرگز گنجائش نہیں۔
دوسری ملکوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ کرونا نے ترقی یافتہ یورپ اور سپر پاور امریکہ کا بھرم بھی کھول دیا۔ جن ملکوں نے تاخیر اور غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا ان کا حشر ہمارے سامنے ہے۔ اٹلی میں کورونا سے ساڑھے بارہ ہزار سپین، میں آٹھ ہزار سے اوپر، امریکہ اور فرانس میں ساڑھے تین ہزار سے زیادہ فی ملک ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ جن ملکوں نے نہایت سنجیدگی اور بروقت پیش بینی سے کام لیتے ہوئے کورونا کو روکنے کے لئے شدید نوعیت کے اقدامات کئے، ان میں جنوبی کوریا، سنگا پور، تھالی لینڈ اور جرمنی وغیرہ شالم ہیں جہاں بہت کم اموات ہوئی ہیں۔
جناب وزیر اعظم کی یہ تشویش بجا ہے کہ مکمل لاک ڈائون یا کرفیو کی صورت میں دیہاڑی دار مزدوروں اور بے روزگاروں کا کیا ہو گا۔ لاکھوں کی تعداد میں مزدور اور گھروں کارخانوں میں کام کرنے والی خواتین اور مرد گزشتہ کئی ہفتوں سے عملاً بیکار بیٹھے ہیں۔ اس مسئلے کا حل بھی یہی ہے کہ پوری سوسائٹی دل کھول کر تعاون کرے۔ تاہم غریبوں تک ان کی بستیوں میں مالی یا غذائی امداد پہنچانے کا کام نوآموز ٹائیگر فورس ہرگز انجام نہیں دے سکتی اس کے لئے بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ چاہے ان اداروں کو پیرول پر ہی وبا سے نمٹنے کے لئے محدود مدت بحال کر دیں۔ جہاں تک کورونا ٹیسٹ کا تعلق ہے تو اس وقت تک چین سے لاکھوں کی تعداد میں کٹس آ چکی ہیں ٹیسٹوں میں رکاوٹ ہماری لیبارٹریوں میں بی ایس ایل 3حیاتیاتی حفاظتی کیبنوں کی کمی ہے۔ ان کیبنوں کی تیاری کوئی اتنا پیچیدہ معاملہ نہیں۔ مکتہ المکرمہ سے ایک ثقہ دوست عامل عثمانی نے وٹس ایپ پر خبر دی کہ ایبٹ کمپنی کے جس انجینئر نے 5منٹ میں کورونا ٹیسٹ ڈیوائس تیار کی ہے اس کا تعلق سندھ پاکستان سے ہے۔ اگرچہ اس خبر کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی۔ تاہم یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ پاکستانی ماہرین کی اعلیٰ خدمات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے۔
حکومت دل بڑا کرے اور سیاسی اختلافات بھلا دے۔ سیاست دانوں کو بلائے، غیر سرکاری طبی ماہرین سے مشورہ کرے، علماء کرام کو اعتماد میں لے، تاجروں اور الخدمت، اخوت، ایدھی ٹرسٹ اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کو مدعو کیا جائے ان کے اجلاس اسی طرح منعقد کریں جیسے وہ اپنی کیبنٹ اور اپنی جماعت کے اجلاسوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ جب کنفیوژن کا خاتمہ ہو گا اور نیک نیتی سے ایک متحدہ و متفقہ قومی پالیسی وجود میں آئے گی تو انشاء اللہ لاک ڈائون یا کرفیو کی صورت میں بھی کوئی ذی روح بھوکا نہیں رہے گا اور مہینوں میں نہیں دنوں میں کورونا اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ ارض پاک سے رخصت ہو جائے گا۔