کبھی کبھی مجھے بے پناہ حیرت ہوتی ہے کہ مرشداقبال نے محض چند برس کے مطالعے اور مشاہدے کے دوران تہذیب مغرب کے چہرے پر ترقی کے تہہ در تہہ غازے کے نیچے اس کے انسانیت کش ایجنڈے تک رسائی کیسے حاصل کر لی تھی، دیکھئے اقبال کتنی گہری حقیقت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ ؎
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
ہماری سادگی اور سادہ دلی دیکھیے کہ دو حرف تسلی کے جو کہہ دیتا ہے اسے نقدِ دل پیش کر دیتے ہیں۔ گزشتہ برس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں پاکستانی وزیر اعظم جناب عمران خان کی دل جوئی کے لئے کشمیر پر ثالثی کی بات کی تو خان صاحب یہ سن کر پھولے نہ سمائے۔ انہوں نے پاکستان پہنچتے ہی یہ بیان داغ دیا کہ میں اتنا خوش ہوں کہ جیسے میچ جیت کر آ رہا ہوں۔ اس ثالثی کی پیشکش کا جواب بھارت نے مظلوم کشمیریوں کو گھروں میں مقید کر کے، مسجدیں اور سکول بند کر کے، عفت مآب خواتین کی بے حرمتی کر کے، ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کو دور دراز جیلوں میں ڈال کر اور سینکڑوں کو شہید کر کے دیا۔ بھارت کے انسانیت سوز مظالم پر امریکہ نے لب سی رکھے ہیں۔ اب ٹرمپ کے دورہ بھارت کے موقع پر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فرماتے ہیں کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ٹرمپ مودی سے جواب طلب کریں۔ ہماری توقعات کے جذباتی گراف کا حقیقت پسندی سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے مقاصد کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ پاک بھارت ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے میں امریکہ ہمیں محض اپنا "بازوئے شمشیر زن" سمجھتا ہے۔ جبکہ ہندوستان اس کا تجارتی و علاقائی پارٹنر ہے اور اپنے آپ کو اس علاقے میں امریکی مقاصد کا محافظ ہے۔ ٹرمپ" کے سلوگن کے ساتھ پرجوش جواب آں غزل پیش کریں گے۔ ہیوسٹن میں مودی اور ٹرمپ نے 50 ہزار کے مجمعے سے خطاب کیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ پیر کے روز ٹرمپ اور مودی احمد آباد کے سٹیڈیم میں ایک لاکھ سامعین کے دلوں کو گرمائیں گے۔
ٹرمپ کے اس دورے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی معاہدوں کے بارے میں جو باہمی کشاکش پائی جاتی ہے اسے دور یا کم کیا جائے۔ امریکہ نے کچھ عرصہ پہلے بھارتی ایلومینیم اور سٹیل پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی تھی اور بھارت کی ترجیحی حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس کے خلاف نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بعض درآمدی امریکی اشیا پر عائدکردہ ٹیکسوں میں بہت اضافہ کر دیا تھا۔ ٹرمپ نے بھارت کے لئے عازم سفر ہونے سے پہلے واشنگٹن میں یہ بیان دیا تھا کہ اگرچہ بھارت کے ساتھ کچھ تجارتی معاہدے ہو سکتے ہیں مگر مستقبل قریب میں شاید امریکی صدارتی انتخاب سے پہلے بھارت کے ساتھ ایک بہت بڑی تجارتی ڈیل ہو سکتی ہے۔ اگرچہ کسی معاہدے یا کسی اعلامیے میں "چین" کا نام تو نہ آئے گا مگر اس دورے کا ایک اہم فوکس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اقتصادی اور عسکری اثرورسوخ کو محدود کرنا ہے۔ چین، روس، پاکستان اور ترکی وغیرہ کی صورت میں ایک ابھرتا ہوا علاقائی بلاک بھی اس دورے کے دوران دوطرفہ توجہ کا مرکزی نقطہ ہو گا۔ امریکہ بھارت کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو محدود بھی کرنا چاہتا ہے اور ایشیا میں اپنے مفادات کا تحفظ بھی چاہتا ہے۔ اس دورے میں بھارت اور امریکہ کے درمیان کچھ دفاعی معاہدے بھی ہو سکتے ہیں اور امریکہ اپنے فوجی ہوائی جہاز بھی بھارت کو فروخت کرے گا۔ امریکی صدر کے دورے کی ظاہری چکا چوند میں تاج محل آگرہ بہت نمایاں ہے۔ بہت سے امریکی قائدین ماضی میں تاج محل جا چکے ہیں۔ جیکولین کینیڈی ایک نیم سرکاری دورے کے دوران تاج محل گئی تھیں اور انہوں نے وہاں تصویر بنوائی تھی۔ جارج بش اور باربرا بش بھی تاج محل دیکھنے گئے تھے اور وہاں انہوں نے یادگار تصویر کھنچوائی تھی۔ بل کلنٹن نے اپنی بیٹی چلیسا کے ساتھ تاج محل کی سیر کی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ بے تکلیف اوربے ساختگی میں بہت شہرت رکھتے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ تاج محل کی روحانی فضا میں کیا تاثرات پیش کرتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیر کے روز سے بھارت کا دورہ اس حال میں کر رہے ہیں کہ اہل کشمیر کو لاک ڈائون کی جکڑ بندیوں میں گرفتار ہوئے 205 دن گزرچکے ہیں وہ امریکہ جو انسانی و نسوانی حقوق کا چمپئن بنتا ہے وہ انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر مہربلب کیوں ہے؟ کشمیری خواتین کی بے حرمتی پر تو ہر حساس دل مضطرب و بے چین ہے اور مطالبہ کیا جا رہا کہ بھارتی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ امریکی صدر کی بھارت آمد سے ایک روز قبل قوم پرست اور متعصب بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکرٹری رام سادھو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ اکھنڈ بھارت کی جانب پہلا قدم اور اگلا قدم آزاد کشمیر کی واپسی ہے۔ دو ماہ سے بھارت میں مسلم مخالف شہریت بل کے خلاف زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی دہلی میں متنازعہ شہریت بل کے خلاف پھر زبردست مظاہرے ہوئے۔ بی جے پی کی ریلی کے شرکاء نے دہلی کے علاقے جعفر آباد میں گھس کر پرامن مسلمان مظاہرین پر پتھرائو کیا۔ گجرات میں احمد آباد کے قریب ایک مسلمان کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ 30 گھر اور 8 دکانیں نذر آتش کر دی گئیں اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک بار پھر فائرنگ اور پتھرائو سے سات طالب علم زخمی ہوئے۔ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور مسلم کش کارروائیاں عروج پر ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ انسانوں کے حقوق کے لئے کیا قدم اٹھاتا ہے؟ جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے تو وہ امریکہ کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہے۔ پاکستان امریکی ثالثی کی تجویز پر مثبت جواب دیتا ہے جبکہ بھارت اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ہمارے خوش فہم حکمرانوں نے امریکہ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ تاہم ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی ترجیح انسانی حقوق نہیں اپنے تجارتی و فوجی مفادات ہیں۔