تنہائی ایک ایسی کیفیت ہے جس کی خواہش ہر بڑے شاعر، ہر بڑے فلسفی اور ہر سچے صوفی نے ضرور کی ہے۔ شاید اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لینے کے لئے تنہائی ضروری ہے۔ مرشد اقبال نے کہا تھا ؎
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب!
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
انگریزی کے سب سے بڑے شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئر نے اپنے کسی صاحب مرتبہ درباری کردار کی زبانی سرکار دربار کی دنیا سے بیزاری اور جنگل کی تنہائی کی خواہش کی تھی۔
Under the greenwood tree, who loves to lie with me, here she he see no enemy, but winter and rough weather
اب کرونا کی نوازش سے دنیاوی محفلوں سے علیحدگی اور جبری تنہائی کی جو نعمت ہمیں میسر آئی ہے اس سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔ زندگی کی بھاگ ڈور میں انسان کو بسا اوقات اپنی دلچسپی کے کاموں کے لئے فرصت کے لمحات میسر نہیں آتے۔ آپ نے اکثر دوستوں سے سنا ہو گا کہ کئی دلچسپ کتابوں کا ذخیرہ کر لیا ہے مگر پڑھنے کی فرصت نہیں۔ بعض لوگوں کو باغبانی کا بہت شوق ہوتا ہے مگر انہیں عملی باغبانی اور پھولوں اور پودوں سے براہ راست سرگوشیوں کا موقع نہیں ملتا۔ آج کل تو نیٹ پر دنیا جہاں کی معلومات موجود ہیں۔
آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے جب وہ پڑھتا ہے کہ نباتات کی دنیا بھی حیوانات بلکہ انسانوں سے مختلف نہیں۔ پودے اور درخت بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہمکلام ہوتے ہیں۔ بیوی بچوں کے ساتھ یہ دنیا دریافت کر کے آپ کو بے پناہ خوشی ہو گی۔ پھولوں، پودوں، کتابوں کے علاوہ بچوں کی دنیا آپ کو فرصت کے ان لمحات میں اس حیرتناک خوشی سے ہمکنار کر سکتی ہے کہ جس کے بارے میں دنیاوی مصروفیات کے دوران آپ نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ میرے ایک نوجوان عزیز بہت بڑے بزنس میں ہیں۔
دنیا کے کئی براعظموں میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے پہلے آٹھ دس ٹیکس دھندہ لوگوں میں وہ پیش پیش ہیں۔ رفاہی و فلاحی کاموں پر بھی دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اتنی بھاگ دوڑ کس لئے؟ صبح پاکستان، شام دوبئی، شب بیجنگ اور اگلی شام لندن میں۔ یہ نوجوان مجھ سے کہا کرتا تھا کہ اس کا دل چاہتا ہے کہ پہروں والدین کی خدمت میں حاضر رہوں۔ ان کی دعائیں لوں۔ ان کی ہی محنت اور دعائوں سے یہ مقام نصیب ہوا۔ مگر فرصت میسر نہیں آتی۔ گزشتہ روز ان کا فون آیا تو انہوں نے خلاف معمول بڑے اطمینان سے تادیر بات چیت کی۔ پیچھے سے کچھ آوازیں آ رہی تھیں۔
نوجوان بتانے لگا یہ میری بیٹی ہے اسے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی کہ بابا کئی دنوں سے مسلسل گھر پر ہیں۔ چھوٹے بڑے بچوں کے ساتھ گھر کے اندر وقت گزارنے اور ان کی معصوم دنیا دریافت کرنے اور بڑے بچوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے اور جنریش گیپ کو کم سے کم کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ بعض لوگوں کو اللہ نے ذکر و فکر کی نعمت سے نوازا ہوتا ہے مگر وہ زندگی کے جھمیلوں میں اس سعادت سے محروم ہونے لگتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں ذکر اور فکر دونوں کی طرف انسانوں کو بہت متوجہ کیا گیا ہے۔ فرصت کے ان لمحات کا یہ بہترین مصرف ہو سکتا ہے کہ اللہ سے لو لگائی جائے، خاص طور پر افتاد و وبا کی اس صورت حال میں یہ عین مقصود و مطلوب ہے۔ نہ جانے اللہ اپنے کسی مقرب کی دعائے نیم شبی کی بنا پر ساری خلقت پر آئی ہوئی اس مصیبت کو ٹال دے۔
استاد گرامی ڈاکٹر خورشدی رضوی سے تنہائی کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے اپنی ذات کے حوالے سے چند دلچسپ باتیں بنائیں۔ پہلے میں ان کے بارے میں چند باتیں کر دوں۔ ڈاکٹر صاحب زمانہ طالب علمی میں ساتھی طلبہ کے لئے مرکز نگاہ اور بحیثیت پروفیسر نصف صدی سے اپنے طلبہ کے لئے پیرو مرشد کا درجہ رکھتے ہیں اور بزم دوستاں میں رونق محفل ہوتے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ اوائل ملازمت کے چند سالوں میں مجھے تنہائی بزم آرائی سے زیادہ مرغوب تھی اور میں اپنی دنیا میں مگن رہ کر بھی خوش رہتا تھا۔ اسی زمانے میں انہوں نے یہ شعر بھی کہا تھا کہ:
تم کو میری افتاد کا اندازہ نہیں
تنہائی صلہ ہے مرا خمیازہ نہیں
انہوں نے بتایا کہ جب مجھے چند ماہ کے دوران ملازمت ایک ایسی جگہ جانا پڑا کہ جو تھی تو دامن کوہ میں مگر ایک ویرانہ تھی۔ کل دو اڑھائی سو طلبہ اس کالج میں پڑھتے تھے۔ وہ کالج سے بعد دوپہر چلے جاتے تو پھر ہو کا عالم ہوتا نہ بندہ نہ پرندہ۔ کالج کے ہی ایک کمرے میں سر کا دو تین پروفیسروں کے ساتھ قیام تھا۔ فرماتے ہیں تب مجھے احساس ہوا کہ تنہائی اسی وقت نعمت ہے جب احباب اور پررونق بستیوں تک حسب خواہش رسائی بھی ہو۔ اسی قیام کے دووران انہوں نے تنہائی کے حوالے سے یہ شعر کہا:
اب تو ایسی سرحدوں پر کاش اک کاشانہ ہو
پشت پر آبادیاں ہوں سامنے ویرانہ ہو