Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Do Tareekhi Lamhay

Do Tareekhi Lamhay

تاریخی لمحے قوموں کی قسمت بدل دیتے ہیں بشرطیکہ ان کی قدرو قیمت کو کماحقہ پہچانا جائے۔ 25فروری 1989ء افغانستان کی حالیہ تاریخ کا وہ پہلا تاریخی لمحہ تھا جب غیور افغان قوم کے سربکف مجاہدین نے ایک سپر پاور کو ناکوں چنے چبوائے، اسے ہزیمت سے دوچار کیا اور اسے اپنی مقدس سرزمین سے نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ سپر پاور کے نکل جانے کے بعد جب قومی مفاہمت اور ایک متفقہ حکومت کے قیام کا مرحلہ آیا تو اس میں افغان قوم بالغ نظری اور دور اندیشی سے کام نہ لے سکی۔ لہٰذا ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

اگرچہ مجاہدین میں گلبدین حکمت یار، پروفیسر ربانی اور پروفیسر عبدالرب رسول سیاف جیسے اصحاب علم موجود تھے مگر وہ بھی پاور گیم کا حصہ بن گئے اور اپنے ملک کو خانہ جنگی سے نہ بچا سکے۔ افغان خانہ جنگی کے ہنگام میں 1990ء کی دہائی کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف مجاہدین قیادت کے ساتھ مکتہ المکرمہ گئے تاکہ سعودی حکمرانوں کے اثرورسوخ کو کام میں لا کر مجاہدین کو مفاہمت و یگانگت پر آمادہ کیا جا سکے۔ میں بھی اس جمعتہ المبارک کو نہیں بھول سکتا جب حرم مکی میں افغان مجاہدین سعودی خطیب کے پیچھے ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔ اس روز خطیب حرم شیخ عبدالرحمن السدیس بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ یہ فقیر بنفس نفیس حرم شریف میں موجود تھا۔ شیخ السدیس نے مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم آپس کے تفرقے میں تباہی کے گڑھے تک پہنچ چکے تھے مگر پھر اللہ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے ہو۔ انہوں نے افغان مجاہدین کو نصیحت کی کہ اب اس بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھیں۔ سوویت یونین کی ہزیمت کے بعد ان کی باقیات بھی ایک ایک کر کے مٹتی چلی گئی مگر افغان مجاہدین ایک دوسرے کو الزام دیتے رہے، خانہ جنگی کے شعلے بھڑکتے رہے۔ افغان بھی باقی تھے کہسار بھی باقی تھے اور افغانوں کا خون ناحق بھی بہتا رہا۔ فروری 1989ء سے اپریل 1992ء تک المناک اور افسوسناک سلسلہ چلتا رہا۔ پھر 28 اپریل 1992ء کے معاہدہ پشاور کے تحت ایک عارضی افغان حکومت تو بنی مگر عمومی طور پر ملک طوائف الملوکی کا شکار رہا۔ مختلف کمانڈروں نے چھوٹے چھوٹے علاقوں پر اپنی حکومتیں قائم کر لی تھیں۔ جگہ جگہ لوگوں سے ٹیکس لیا جاتا تھا اور افغان عوام کی عزت و مال ان حکمرانوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہی۔ تب ملا عمر ایک دینی مدرسے میں زیر تعلیم تھے اور ان کے کوئی سیاسی و جہادی عزائم نہ تھے مگر جب ایک ظالم کمانڈر کے ظلم صریح کی داستان ان تک ایک ثقہ ذریعے سے پہنچی تو انہوں نے ساتھی طالب علموں کے ساتھ۔ اس پر حملہ کر دیا مجبور نوجوان افغان لڑکیوں کو اس کے چنگل سے رہائی دلائی اور اسے عبرت ناک انجام سے دوچار کر دیا۔ یوں طالبان کا باقاعدہ آغاز ہو گیا اور انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کابل پر قبضہ کر لیا۔

29 فروری 2020ء کو دوسرا تاریخی لمحہ اس وقت منظر عام پر آیا جب دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ نے دنیا کے سامنے افغانستان سے نکل جانے کا اعلان کر دیا۔ امریکہ مسلسل 19 برس تک طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرتا رہا۔ اس نے دنیا کے جدید ترین اسلحے کے ذریعے طالبان کو ملیا میٹ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر اسے بھی سوویت یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مجبوراً افغانستان کی سرزمین سے نکلنا پڑا۔ انیس برس افغانستان میں خون ریزی ہوتی رہی، لاکھوں مارے گئے، لاکھوں دربدر ہوئے اس دوران امریکہ طرح طرح کے بم برساتا رہا اور طالبان مزاحمت کے نئے ابواب رقم کرتے رہے اور خودکش حملے کرتے رہے۔ یوں ہر دو صورتوں میں افغانوں کا خون بہتا رہا۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ اور عسکری دانشور لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے افغانوں کے ماضی کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں جھانک کر پیش گوئی کی تھی کہ چاہے امریکہ افغانستان میں 100 برس بھی بیٹھا رہے بالآخر اسے جانا ہو گا۔ اس معاہدے تک پہنچنے میں تقریباً ڈیڑھ برس لگا۔ اس دوران فریقین نے لچک دکھائی اور اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کی۔ امریکہ 14 ماہ میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی تمام افواج افغانستان سے مرحلہ وار نکال لے گا۔ طالبان افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

افغانستان میں امن کی کنجی کس کے پاس ہے؟ افغانستان میں امن کی کنجی طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کامیاب مذاکرات کی جیب میں ہے۔ امن ڈیل میں واضح کیا گیا کہ 5ہزار طالبان اور ایک ہزار اہل کار رہا کئے جائیں گے۔ طالبان کی طرف سے ڈیل میں یہی نکتہ منوایا گیا تھا۔ افغان دستور، نئی حکومت کا قیام یا کسی عارضی سیٹ اپ کے تحت نئے انتخابات۔ حکومت میں مختلف افغان جماعتوں، گروہوں قبیلوں اور علاقوں کا کیا تناسب ہو گا۔ بین الافغان مذاکرات کے لئے افغان حکومت کی ٹیم کن شخصیات پر مبنی ہو گی۔ موجودہ صدر اشرف غنی کی کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ اختیارات ان کے ہاتھ میں رہیں جبکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کی بھی خواہش ہے کہ وہ بھی مذاکراتی عمل کا حصہ ہوں۔ گزشتہ اٹھارہ برس کے دوران افغانستان کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ افغان آئین کے علاوہ افغانستان میں افغان فوج اور کئی سکیورٹی ادارے وجود میں آ چکے ہیں اس دوران تعلیم کا تناسب بہت بڑھا ہے۔ خاص طور پر عورتوں میں تعلیم پھیلی ہے اور انہیں پہلے سے کہیں بڑھ کر آزادی عمل حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ آج کا افغانستان 19برس پہلے والا افغانستان نہیں۔ امن معاہدے کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوئی کہ افغان صدر نے بیان داغ دیا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کی پیشگی شرط نہیں۔ بین الافغان مذاکرات میں اس پر غور ہو سکتا ہے۔ دراصل صدر اشرف غنی طالبان قیدیوں کی صورت میں اپنے ہاتھ مضبوط رکھنا چاہتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کا یہ بھی فرمان ہے کہ وہ امریکی اتھارٹی نہیں مانتے۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا