وزیر اعظم عمران خان جب سے برسر اقتدار آئے ہیں، دو طبقوں کے خلاف جنگ لڑنے کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا یہ دونوں طبقہ الگ الگ ہیں یا دونوں کا تعلق ایک ہی گروپ سے ہے۔ اشرافیہ سے ان کی مراد کون لوگ ہیں؟ اشرافیہ سے مراد اگر امیر لوگ ہیں تو امیر ہونا ایسا کون سا جرم ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں کسی کا امیر ہو جانا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے جب کہ دنیا بھرکے امیر لوگوں کا ذکر ہم سب بڑے شوق سے بھی کیا کرتے ہیں۔ بل گیٹس کی امارت سے ہم بڑے مرعوب ہوتے ہیں اور اُن کے امیر ہو جانے کو برا بھی نہیں سمجھتے۔ اسی طرح بھارت میں چند بڑے بڑے امیر خاندانوں کا ذکر بھی ہم بڑے فخر سے کیا کرتے ہیں۔
ٹاٹا، برلا اور مکیش امنبانی کے ناموں سے ہمارے یہاں بچہ بچہ واقف ہے اور حیران کن طور پر ہمیں اُن کے امیر ہونے پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ خود بھارت میں انھیں عزت و قدر کے نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں اور ملک و قوم کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں، مگر ہمارے یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
ایوب دور میں اُس وقت کی اپوزیشن نے ملک کے بائیس خاندانوں کے بارے میں عوام کو بہت ورغلایا اور گمراہ کیا اور اُن کے خلاف زبردست نفرت انگیز مہم چلائی۔ حالانکہ اُن کی لڑائی ایک آمر محمد ایوب خان سے تھی مگر ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ملک کے چند صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خلاف اشتعال انگیز رویہ اپنایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن صنعت کاروں نے ملک میں سرمایہ لگانے کے بجائے اُسے باہر لگانے کو ترجیح دینا شروع کردی۔
بھٹو صاحب کی سوشلسٹ سوچ نے اور صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی پالیسی نے صنعتی ترقی کا راستہ نہ صرف روک دیا بلکہ مکمل طور پر مسدود بھی کردیا۔ 1972 سے یہ سلسلہ ایسا رکا کہ پھر کبھی بحال نہ ہوسکا۔ آج اِس بات کو تقریبا 50 سال ہونے کو ہیں، ہم ترقی کی اُس منزل کو نہیں پہنچ پائے جہاں ہمیں آج ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ بھارت میں اپنے صنعتکاروں کی ایسی حوصلہ افزائی کی گئی کہ اِس خطہ میں سرمایہ کاری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور یوں صنعتی میدان میں اُس نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
بھٹو صاحب کے بعد آنے والی حکومتوں نے گرچہ قومیائے جانے کی پالیسی کو ترک کرکے پرائیویٹائزیشن کی پالیسی کو اپنایا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہونے میں بہت مشکلیں درپیش ہونے لگیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کی اِس پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے نجکاری کی پالیسی کو اپنایا اور کوشش کی کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔ لیکن بار بار حکومتیں گرانے کی وجہ سے ہمارے یہاں کوئی پالیسی کامیاب نہ ہوسکی اور نتیجتاً وہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے جو ہونا چاہیے تھے۔
دو ڈھائی سال کسی حکومت کے لیے کافی نہیں ہوتے وہ اگر کوئی منصوبہ شروع بھی کرنا چاہیں تو اُسے مکمل ہونے سے پہلے ہی اُس حکومت کا خاتمہ کردیا جاتا ہے یا پھر ایسی سیاسی بے چینی پیدا کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حکومت یکسوئی کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا نہیں پاتیں۔
2018 میں پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آ جانے کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ اِس حکومت کو چونکہ ملک کی مقتدر قوتوں کی بھرپور مدد اور تعاون بھی حاصل ہے تو شاید یہ حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ضرورکامیاب ہوجائے گی لیکن دیکھا یہ جا رہا ہے کہ یہ حکومت بھی ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط اور بے جا بھی نہ ہوگا کہ اِس حکومت نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کے سبب ملک کا اور بھی نقصان کردیا ہے۔
جن غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کے بارے میں خان صاحب اپنے دور اپوزیشن میں بہت ذکر کیا کرتے تھے اور اُن سے نجات دلانے کے وعدے اور دلاسے دیا کرتے تھے وہ قرضے آج اُن کے اپنے دور میں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ چکے ہیں۔ معیشت کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے شکنجے میں بھی جکڑ دیا گیا ہے جس نے اپنی من مانی شرائط کے تحت کچھ مالی امداد تو ضرور دی ہے لیکن قوم پر مہنگائی کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ حکومت کی مقبولیت اگر آج کم ہورہی ہے تو اِس کے پیچھے بھی سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور گرانی ہی ہے۔
غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی بھی مشکل کردی گئی ہے۔ ادھر وزیراعظم صاحب ابھی تک صرف زبانی جمع خرچ کرکے مہنگائی کا ذمے دار صرف اور صرف نامعلوم مافیا اور اشرافیہ کو قرار دیتے ہیں مگر اُس کے سدباب کے لیے کوئی نتیجہ خیز کارروائی نہیں کرتے۔ وہ جب کبھی خطاب کرتے ہیں تو اصل نشانہ اپوزیشن اور کسی غیر مرئی مافیا یا پھر اشرافیہ ہی ہوتی ہے۔
پہلے اِس ملک میں صرف بائیس خاندان اشرافیہ کی فہرست میں شامل سمجھے جاتے تھے پھر رفتہ رفتہ وہ بائیس سو میں بدل گئے مگر آج بائیس ہزار سے بھی بڑھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کی حکومت اُن کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے دھرنے کے اخراجات کس نے پورے کیے؟ کیا وہ اشرافیہ کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ پرویز مشرف دور سے پہلے وہ لوگ کیا تھے اور آج کیا ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے۔ فیصل واؤڈا یا زلفی بخاری اور بہت سے دوسرے مالدار لوگ اسی حکومت کا حصہ ہیں لیکن لگتا ہے، شاید ان کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہے۔
امیر ہونا ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی عوام کا حق مار کر اپنی یہ خواہش پوری کرتا ہے تو اُس کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔ کوئی اگر شوگرکے کارخانے لگائے جا رہا ہے اور چینی کے دام بھی اپنی مرضی سے طے کررہا ہے تو پھر ایسے سرمایہ دار کے خلاف سخت اقدام بھی ہونا چاہیے۔ ہمارے یہاں بہت سے سیاستداں ایسے ہیں۔
جنھوں نے قوم کا پیسہ قرض کے صورت میں بینکوں سے لے کر خود کو بعد ازاں کنگال اور دیوالیہ بتا کر معاف بھی کروا لیا ہے، اُن کے خلاف حکومت کیوں کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ حالانکہ یہ کام کوئی اتنا مشکل یا نا ممکن بھی نہیں ہے۔ ہمارے اسٹیٹ بینک کے پاس اُن سب کے ناموں کی فہرست موجود ہے، اگر وزیراعظم چاہیں تو یہ فہرست ایک اشارے پر انھیں مل سکتی ہے۔ مگر جب سیاسی مفادات ارادوں کی راہ میں حائل ہو جائیں تو نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ لگتا ہے ہمارے اگلے دو برس بھی ایسے ہی گذر جائیں گے۔ قوم 2018 میں جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہے گی۔