اقبال نے خوب صورت شعری پیرائے میں اظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ مسلمان کے لیے تو قرآن کے بغیرزندگی گزارنا ممکن ہی نہیں ہے?نیست ممکن جز بقرآن زیستن? مسلمان، قرآن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ اس کی زبان سے ناواقف ہونے کے باوصف اسے صحت کے ساتھ پڑھتے ہیں حالانکہ عربی میں، زبان سے آشنائی کے بغیر کسی متن کو پڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہاں یہ عالم ہے کہ زبان سے بے خبرہیں اور اس زبان کا اعلیٰ ترین فن پارہ قرأت کے تمام لوازم کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ خواہ خود اس سے تعلق استوارکرنے کا موقع نہ ملے لیکن جس کے بارے میں معلوم ہوکہ اس نے قرآن سے تعلق استوارکرلیاہے اس کا بہت لحاظ اور ادب کرتے ہیں ?اس ادب و احترام کے ساتھ اگر پیام قرآن تک بھی ان کی رسائی ہوجائے تو سونے پر سہاگہ ہو?مسلمانوں کی اس عام روش ورفتارکے باعث یونان کی پاکستانی کمیونٹی نے جب سے یہ سناتھاکہ میراہم سفر حذیفہ یونان آنے سے پہلے قرآن کریم کے حفظ کی سعادت حاصل کرچکاہے اور اس کا یہ سفر، حفظ ِقرآن کے انعام کی ایک شکل ہے تو انہوں نے اس کی آمین کا پروگرام بنایا۔ حذیفہ نے حفظ جولائی میں مکمل کیا، اگست میں اس کا اے لیول کاشان دار رزلٹ آیا، ستمبرمیں اس کی کتاب (A Pyramid of Reminiscences)شائع ہوئی۔ میں نے جب اس سے پوچھاکہ وہ ان کامیابیوں کا کیاانعام لیناچاہے گاتو اس نے سفریورپ کی خواہش ظاہر کی۔ اکتوبر میں اسے لے کر میں سفرترکی ویورپ پر روانہ ہوگیا۔ جس روز حذیفہ نے حفظ قرآن کی تکمیل کی میں نے اسی روز یادگارکے طورپر یہ تاریخ کہی ؎
علوم و معارف کا گہرا سمندر
سمٹ کر حذیفہ کے سینے میں آیا
مبارک مبارک بہا، کا اضافہ
ترے جسم میں، جاں میں قرآں سمایا
آخری مصرعہ تاریخی ہے (جس کے اعداد ۱۴۳۱ہیں ) لیکن اس میں آٹھ کی کمی تھی جسے تیسرے مصرعے میں تعمیہ کے طریقے سے "بہا"کی رمز رکھ کر پوراکردیاگیا جس کے اعدادآٹھ ہیں۔ یوں پوراسنہ حاصل ہوگیا جو ۱۴۳۱+۸=۱۴۳۹ھ ہے۔ پاکستان میں حذیفہ کی آمین پنجاب یونی ورسٹی نیوکیمپس میں ہوئی۔ اب براعظم یورپ میں اس کی آمین کی جارہی تھی۔
وہ جمعہ کا دن تھا جب ہمیں سفیرپاکستان جناب خالدعثمان قیصر ایتھنزکی جامع حسن بن علیؓ لے گئے۔ حافظ محمد اکرم صاحب نے اپنی تقریرمیں حذیفہ کے تعارف اورتعریف کے ساتھ ہماراستقبال کیا۔ حاضرین سے عمارت بھری ہوئی تھی۔ عرفان تیمورصاحب نے اکل و شرب کا اچھا خاصا انتظام کررکھاتھا۔ یہ ایک بھرپورمحفل تھی۔ سیدمحمد جمیل شاہ صاحب، مرزاجاویداقبال صاحب اورخالدمغل صاحب اوربہت سے احباب اس محفل کی رونق تھے۔ پہلے حذیفہ سے تکمیل حفظ قرآن کی علامت کے طورپر تلاوت سنی گئی اور پھرمجھ سے کہاگیاکہ میں اس محفل سے خطاب کروں۔ آج کل کسی گفتگوکو ریکارڈ کرناکیا دشوار ہے، حسب دستور یہ گفتگوبھی ریکارڈ کرلی گئی جسے بعدمیں ڈاکٹرسکندرحیات صاحب نے سینہء قرطاس پر منتقل کردیا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قال اللہ تعالیٰ فی القرآن الکریم: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔ رہایہ ذکرتواس کو ہم نے نازل کیا ہے اورہم خوداس کے نگہبان ہیں (۱۵:۹)عزیزان گرامی!مجھ سے کہاگیاہے کہ میں تربیت اولاد کے حوالے سے اظہار خیال کروں لیکن میرا خیال ہے کہ آمین کی نسبت رکھنے والی اس محفل میں اس کتاب مقدس و محترم کے حوالے سے گفتگوکرنی چاہیے جس کی حفاظت کا ذمہ خودذات باری تعالیٰ نے لیاہے جیساکہ ابھی میں نے سورئہ حجرکی آیت آپ کے سامنے تلاوت کی جس میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے فرمادیاہے کہ یہ قرآن خداہی کی طرف سے نازل کیاگیاہے اور اس نے خود ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی ہے۔ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ? اس حفاظت کی ایک شکل یہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچے اس عظیم کتاب کو حفظ کر لیتے ہیں۔ وہ جواقبال نے کہاتھا کہ ؎
بنگر آن سرمایہء آمالِ ما
گنجد اندر سینہء اطفال ِما
دیکھو ہماری امیدوں کا یہ سرمایہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں محفو ظ ہوجاتاہے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے خودصاحب ِکلام کے بارے میں یہ کہاکہ ؎
نہ تو اندر حرم گنجی نہ دربت خانہ می آئی
ولیکن سویِ مشتاقان چہ مشتاقانہ می آئی
تو جو اتنا عظیم ہے کہ حرم میں سماسکتاہے نہ بت خانے میں، اپنے چاہنے والوں کی جانب کس قدر شوق سے آتاہے گویاجو اس کائنات میں نہیں سماسکتااپنے چاہنے والوں کے دلوں میں سماجاتاہے اورقرآن کی عظمت کاتویہ عالم ہے کہ اگراسے پہاڑوں پر نازل کیا جاتاتوپہاڑ اس کے بوجھ سے پھٹ جاتے لیکن یہ انسان ہی ہے جس نے اس کی عظمت کو سہا، جو اس کا امین بنا اور جواس کی حفاظت کا ذریعہ بنا۔ اگرچہ حفاظت تو اللہ نے خود اپنے ذمے لے لی ہے۔ یہ حفاظت عجیب و غریب ہے۔ زندہ معجزہ ہے بلکہ خاتم المعجزات ہے۔ اس کے بعد ایسا اورکوئی معجزہ آپ نہیں دکھاسکتے، جسے زبانی روایت(Oral Tradition)کے ذریعے باقی رکھاگیا۔ آپ یونان میں رہتے ہیں، یہ جانتے ہیں کہ علم بنیادی طورپر زبانی روایت ہی سے منتقل ہوتارہاہے۔ یونانی فلاسفہ کے افکارزبانی روایت ہی سے منتقل ہوئے ہیں، تصنیف ثانوی شے ہے۔ قرآن کی بھی طباعتی صورت ثانوی چیزہے، بنیادی چیزاس کی زبانی روایت ہے۔ متن تو اس طرح محفوظ کرنے کا اہتمام ہوگیااور اس اہتمام کے کرنے والوں کو جن انعامات سے نوازنے کا وعدہ کیاگیا وہ بھی کم نہیں۔ مشہورروایت ہے کہ جس نے قرآن پڑھااس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں میں لے لیا۔ مرادیہ ہے کہ اگرچہ اس کی طرف وحی نہیں بھیجی گئی لیکن وحی کے علوم اس کے سینے میں سماگئے، اس لیے ایسے شخص کے لیے، قرآن کے حامل کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصہ والوں کے ساتھ غصہ کرے، جہلاکے ساتھ جہالت سے پیش آئے کیونکہ اس کے سینے میں قرآن ہے۔ پھریہ بھی فرمایاکہ ہرقوم کا ایک شرف ہوتاہے، ہماری قوم کا شرف قرآن ہے جو اس قرآن کو پڑھتاہے اور اس پر عمل کرتاہے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایاجائے گا جس کی روشنی "احسن من ضوء الشمس" سورج کی روشنی سے بہترہوگی۔
قرآن جس زندگی کی تلقین کرتاہے اور ہم جو زندگی گزاررہے ہیں افسوس ہے کہ ان دونو میں تفاوت پایاجاتاہے۔ قرآن انفرادی، اجتماعی، معاشی، قومی، بین الاقوامی ہر حوالے سے جو راہ نمائی فراہم کرتاہے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہماری زندگیاں اس راہ نمائی کے مطابق ہیں؟ قرآن انفرادی سطح پر ایک بامقصد زندگی گزارنے کی تلقین کرتاہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم بامقصد زندگی گزاررہے ہیں ?؟ جی ہاں مقاصد تو ہیں مگر بلندنہیں ہیں۔ حالی نے اہل یونان کی ترقی کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہاتھا کہ ؎
مقاصد بڑے اور ارادے تھے عالی
نہ تھا کوئی چھوٹا بڑا ان سے خالی
آج ہمارے معاشرے مقاصدسے خالی نہیں۔ مقاصدتو ہیں لیکن ذاتی ہیں، پست ہیں، بلند نہیں ہیں۔ قرآن آپ سے بلند مقاصد کی توقع کرتاہے جس کے نتیجے میں آپ کی بے یقینی، یقین سے اور ناامیدی، امید سے بدل جائے۔ اجتماعی سطح پر خود غرضی اور نفسانفسی دکھائی دیتی ہے، قرآن اس کی جگہ ہم سے اخوت اور بھائی چارے کی توقع کرتا ہے۔