فلورنس کے نام سے پہلا خیال تو میکیاویلی ہی کا آیا، جس کا ہم پہلے بھی ذکرکرچکے ہیں اور جس پر اقبال کی تنقید ہماری فکرکا حصہ ہے۔ فلورنس سے دوسرا خیال دانتے کا آیا۔ دانتے الیگری (پ:۱۲۶۵ء) اطالیہ کا غیرمعمولی فن کارشاعر، جس نے عالمی ادب پر اپنے نقوش ثبت کیے۔ آج اگرچہ عالمی سطح پر اطالوی ادب کی پہچان ماناجاتاہے لیکن زندگی میں اپنے خیالات کے باعث اسے فلورنس چھوڑنا پڑا اور۱۳۰۲ء میں جلاوطن کیے جانے کے بعد باقی عمر خانہ بدوشی میں گزری اور اسی عالم میں ملیریاسے ۱۳۲۱ء میں ملیریاکے ہاتھوں راہی ملک عدم ہوا۔۔
اس نے اپنی کتاب Commedia میں جو بعد ازاں ڈیوائن کامیڈی کہلانے لگی دوزخ، اعراف اور بہشت کاتخیلاتی سفرکیاہے۔ اس سفر میں اس کا راہنما ورجل ہے جب کہ اس کی رفیق سفر اس کی محبوبہ بیٹرس تھی جو نو برس کی عمرسے اس کے خیالوں پر چھائی ہوئی تھی۔ اقبال کی" جاوید نامہ" کو بالعموم ڈیوائن کامیڈی سے ملایاجاتاہے کیونکہ اقبال نے زندہ رود کے روپ میں یہ تخیلاتی سفر مولاناروم کی راہ نمائی میں کیاہے لیکن دانتے اور اقبال کے فن میں بڑا جوہری فرق پایاجاتاہے۔ جس وسعت ِنظراور علمی کشادکا مظاہرہ اقبال کے جاوید نامے میں ہے دانتے اس تک نہیں پہنچ سکاہے۔
فلورنس سے اس اطالوی مہم جو تاجر اور سراغ رساں کی یاد بھی آتی ہے جس کے نام سے امریکا بہادرکواپنا نام ملا۔ پاکستان کانام تو ایک جوشیلے کارکن نے مختلف خطوں اور خیالوں کو ملاکر وضع کیاتھا لیکن امریکہ کوگھڑاگھڑایانام مل گیا۔ ہوایوں کہ کولمبس سمیت سب تاجر جنوبی امریکاکے مشرقی ساحل کو براعظم مشرقی ایشیا سمجھتے رہے۔ ۱۴۹۷ء میں ایک اطالوی تاجر اور مہم جو امریکو وسپوچی Amerigo Vespucci نے کولمبس کے پانچ سال بعد اپنا سفرشروع کیا، کولمبس کی طرح وہ بھی ہسپانوی حکومت کاکارندہ تھا۔
اسی کے نام کی نسبت سے اس نودریافت دنیاکو امریکا یاامیریکا کا نام ملا۔ امریکو وسپوچی بھی فلارنساوی تھا۔ فلورنس صرف تاریخی عمارتوں، مجسموں، باغوں اور گرجوں ہی کی بناپر مشہورنہیں بلکہ یہا ں کی تاریخ قدیم زمانے کی طرح جدید دور میں بھی نام ور شخصیات کی حامل رہی ہے۔ جدیدیددورمیں فلورنس کے نامو روں میں فلورنس نائٹ اینگیل اور اوریانافلاسی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ فلورنس نائٹ انگیل Florence Nightingale (۱۸۲۰، ۱۹۱۰ء) وہ مشعل بردارخاتون جو ۱۸۵۳، ۱۸۵۶ء میں ہونے والی جنگ کریمین میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے رات رات بھر ان کے گردگھوماکرتی تھی، جدید نرسنگ کی بانی سمجھی جاتی ہے۔
اہل پاکستان اس کے مقابلے میں جدید اطالوی صحافی خاتون اوریانا فلاسی جسے اطالوی تلفظ کے مطابق اوریانا فلاچیOriana Fallaciکہناچاہیے سے زیادہ واقف ہیں۔ اس خاتون صحافی نے اسرائیلی وزیراعظم گولڈ امیئر، فلسطینی راہنما یاسر عرفات، امریکی وزیرخارجہ ہنری کیسنجر، دلائی لامہ، اندراگاندھی اورامام خمینی جیسے راہنمائوں کے انٹرویوز کیے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں اسے صدربھٹو کے انٹرویو کے لیے خصوصی طورپر پاکستان بلایاگیاتھا جس کی بہت دلچسپ روداداس نے بھٹو صاحب کے انٹرویو کی صورت میں لکھی ہے، جو کئی بار An Interview with history کے نام سے شائع ہوچکی ہے بلکہ میرے پاس اس کا پنجابی ترجمہ" تاریخ نال انٹرویو" بھی موجود ہے۔
وہ جب بھٹو سے ملی تو نازک قدموں، باریک ٹانگوں، مضبوط جسم اور دراز قامت بھٹواسے ایک بینکارکی طرح لگا جو اپنے بنک میں دوسروں کااکائونٹ کھولنے کا خواہشمندہوتاہے۔ بھٹوکی عمراس وقت چوالیس برس تھی لیکن وہ اپنی عمرسے کہیں بوڑھالگتاتھا۔ سرکے بال اڑنے لگے تھے اور جوباقی تھے ان کی رنگت بھی سیاہ سے سرمئی ہوچکی تھی۔ اوریاناکواس کی آنکھوں میں ایک پراسرااداسی دکھائی دی۔ مجھے یادہے کہ مارشل لاکے زمانے میں جب بھٹو کے خلاف قرطاس ابیض تیارکیے جارہے تھے تو انٹرویوکے لیے اوریانافلاسی کوپاکستان بلانابھی بھٹو کے خلاف الزامات میں سے ایک تھا۔
اردوکی نسبت سے بھی کچھ باتیں لوح خیال پرابھریں۔ تاریخ پاکستان پر اطالوی زبان میں ڈاکٹرویٹو سالیرنوکی کتاب یاد آئی جو دراصل ان کے ۱۹۵۹ء اور ۱۹۶۰ء میں تاریخ پاکستان پر دیے گئے دولیکچرتھے جو فلورنس سے شائع ہوئے، اللہ اللہ پاکستان کی تاریخ سے اٹلی والوں کو یہ دلچسپی تھی کہ اس پر لیکچردیے جاتے تھے اور اور اس پر کتابیں شائع ہوتی تھیں اب تو بیرون وطن سنگ دشنام ہی ہمارا مقدر ہیں۔ یادش بخیر ڈاکٹرویٹو سالیرنو کی پاکستان دوستی بھی ایک الگ موضوع ہے کسی اورمقام پر اس کا بھی ذکرہوگا۔
پروفیسربائوسانی کا ذکرپہلے ہوچکاہے فلورنس اور دانتے کی نسبت سے بھی انھیں یادکیاجاسکتاہے وہ یوں کہ انھوں نے مشرق اور مغرب میں دانتے اور اقبال کا تقابلی مطالعہ کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جو ۱۹۵۱ء میں اطالوی زبان میں شائع ہوئی، یوں تو عام اطالویوں کو دانتے یا میکیاویلی سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن اہل علم کے ہاں البتہ یہ موضوع زیربحث آجاتاہے پروفیسربائوسانی نے "پاکستان میں دانتے اور اقبال"کے عنوان سے اطالوی زبان ہی میں ایک اور کتاب بھی لکھی تھی جو ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی۔
زمانہ حال میں نیپلزیونی ورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹرروبرٹو ٹوٹیلیRoberto Tottoli کو بھی اس موضوع سے دلچسپی ہوئی ہے راقم کو اس کا علم ان کے ایک الیکترونی پیغام سے ہوا جس میں انھوں نے لکھا:
Dear Zahid, I hope this finds you well.I am writing a paper on Dante and his Divina Commedia in Islamic world and I know that Iqbal wrote with his Javidname a poem connected to it. You are a great expert of Iqbal: do you have some suggestion as regards bibliography on this topic?
یہ پیغام ملنے کے بعدراقم نے انھیں ذیل کا جواب لکھا:
A lot of work has been done on Iqbal but the majority of it is in Urdu. However، given the calliber of your research، you have probably already gone through everything but here is a book I thought might help in your project- La Escatologia Musalmana en La Divine Commedia by Prof Miguel Asin. In 1919 it was published from Madrid in Spanish language. A brief translation was done with the title of Islam and the Divine Comedy
خیر یہ سب کچھ فلورنس کی نسبت سے لوح ذہن پر ابھرنے والے خیالات تھے۔ یہی نہیں فلورنس کی نسبت سے راقم کے آسمان تخیل پر ایک نظم کا نزول بھی ہوا۔ کیامضائقہ ہے اگر خوانندگان کرام اس ذائقے میں بھی شریک ہوجائیں :
فلورنس والوں نے /شعروادب میں /ثقافت، تجارت، سیاست کے فن میں /کیے ثبت، جونقش لوح جہاں پر /وہ صدیوں کی گردش میں زندہ رہے ہیں /رواجوں کا مبدا، امارت کا مظہر/بم و زیرسے اپنے لہجے کے واقف/فلورنس، مکیاولی کا وطن ہے /نگاہِ شہنشاہیت کا وہ سرمہ/گرفتہ گلوجس سے انسانیت ہے /وہ گلیاں، وہ کو، جس میں دانتے کا گھرہے/مجھے کاش اس گھرمیں دانتے بھی ملتا/میں سرمہ فروشی کے ان شائقوں سے /کچھ اسرارسرمہ فروشی کے کہتا/کچھ ان اختلافوں کے آداب پر بات کرتا/ازل سے جو روح ِزماں میں مکیں ہیں /تنوع کی خوشبو، مہک ہیں گلوں کی/جہنم نہیں ہیں /جہنم، ستونوں میں بل کھاتے شعلے /جہنم تو برداشت کا خاتمہ ہے
جہاں خوئے تسلیم ہے وہ اِرم ہے/جہنم کو چھوڑو اِرم کی کہوتم /عجب ہے کہ موجودسے چشم پوشی کرو/اور عدم کی کہوتم/گروہوں سے، خطوں سے برترہے آدم/زمینوں، زمانوں سے بڑھ کر ہے آدم /اگرآدمیت پہ ایماں نہیں ہے /کوئی اور شے ہے پھرانساں نہیں ہے۔