"روئے زمین پر ایسی کوئی طاقت نہیں جو قیام پاکستان کو کالعدم کرسکے" ?جھنگ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر آفس میں قائداعظم کی تصویرکے ساتھ لکھاہوایہ جملہ مجھے تاریخ کی وادیوں میں بہت دورتک لے گیا ? آخر پاکستان بنانے کی ضرورت کیاتھی؟ قائداعظم ایک سیکولر سیاست دان تھے تو پھر پاکستان کی نظریاتی بنیادکیاہے؟ مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت تھے تو وہ قومیت کیسے بن گئے ?؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج قائداعظم کے پاکستان میں اٹھائے جارہے ہیں۔ شہرت کے طالب یوٹیوب چینلز اور اخباری کالمز ان سوالات کو بنیادبناکر نسل نوکے ذہنوں کو پراگندہ کررہے ہیں۔ تحقیق کی نگاہ سے دیکھاجائے تو ان سوالات کی بنیاد لاعلمی پر ہے۔ اس خطے میں مسلمان ۷۱۲ء میں داخل ہوگئے تھے۔ اسلام کی روشن تعلیمات، مسلم کرداراور صوفیاکی خدمات کا نتیجہ تھاکہ رفتہ رفتہ پنجاب، سندھ، سرحداور بلوچستان کے علاقے مسلم اکثریت کے علاقے بن گئے۔ یہی وجہ تھی کہ بارھویں صدی عیسوی میں پرتھوی راج کو جنگ کے بجائے پنجاب، سندھ اور سرحد کے علاقے شہاب الدین غوری کے سپردکرنے کی پیش کش کی گئی، بلوچستان پہلے ہی مسلمانوں کے پاس تھا۔ پرتھوی راج نے اس تجویزکوحقارت سے ردکردیا جس کے نتیجے میں وہ جنگ ترائن میں غوری کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچارہوکر جان ہارگیا۔ یوں شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں شاندار مسلم سلطنت کی بنیادرکھی۔ قائداعظم کے ہاتھوں ۱۹۴۷ء میں اسی سلطنت کا احیا ہوا جس نے پاکستان نام پایا۔ یہی ہندوستان کی مسلم قومیت کی نظریاتی بنیادہے۔ ڈاکٹرصفدرمحمودنے اپنی کتاب" سچ تو یہ ہے" کے چالیس مقالات میں ان تمام سوالات کے شافی جواب دیے ہیں۔ ڈاکٹرصفدرمحمود ہمارے عہدکے ایسے محقق اور دانش ور ہیں جن کی تحریروں میں علمی جستجوبھی ہوتی ہے اور نظریاتی استواری بھی۔ وہ چونکہ تحقیق سے بات کرتے ہیں اس لیے ایسے بہت سے مزعومات زمین بوس ہوجاتے ہیں جو شہرت پسندیا حسن نیت سے محروم اذہان بلاتحقیق پھیلاتے اور ان کی بنیادپر اپنی دانش وری چمکاتے ہیں۔"سچ تو یہ ہے" کہ ڈاکٹرصفدرمحمودکی یہ کتاب تحریک آزادی پر لکھی جانے والی کتابوں کا گل سرسبدہے۔ کاش نسل نو اس کے مطالعے سے اپنی فکرکو سیراب کرے۔ یہ کتاب عبدالستارعاصم صاحب نے قلم فائونڈیشن لاہورسے شائع کی ہے۔
بات جھنگ یونی ورسٹی سے شروع ہوئی تھی۔ یوم اقبال کا فیضان تھاکہ ہمیں جھنگ جانے، یہاں کی نوزائیدہ یونی ورسٹی کو دیکھنے اور اس کے اساتذہ اور طلبہ وطالبات سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ وائس چانسلرکے دفترمیں آویزاں قائداعظم کی تصویراور اس کے ساتھ لکھے ہوئے قائداعظم کے جملے سے ملاقات بھی اسی سفرکا نتیجہ تھی۔ یہ جملہ وائس چانسلر ڈاکٹرشاہدمنیرکے حسن ذوق اور حسن انتخاب کی نشان دہی کررہاتھا۔ نومبر کامہینہ آتاہے تو ہر طرف یوم اقبال کی تقریبات کی دعوتیں شروع ہوجاتی ہیں اس سال بھی اندرون و بیرون ملک منعقدہونے والی یوم اقبالؒ کی تقریبات سے خطاب کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ
کروناکا "فیضان"ہے کہ اب آپ اپنے گھر بیٹھ کر دوسرے شہروں اور ملکوں کی تقریبات سے خطاب کرسکتے ہیں۔ ہم نے بھی اس طریقے سے ادارئہ فروغ قومی زبان اسلام آبادکی بین الاقوامی اقبال کانفرنس اور دوبئی میں پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے زیراہتمام منعقدہونے والی یوم اقبالؒ کی تقریبات سے الیکٹرونی طریقے سے خطاب کیا۔ پہلی تقریب ادارہ فروغ قومی زبان کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمیدکی سرپرستی میں منعقدہوئی اورموخرالذکرتقریب کے مدارالمہام سلیقہ شعارپرنسپل محمدزاہدعظیم تھے لیکن جھنگ یونی ورسٹی میں یوم اقبال کی تقریب آن لائن نہیں برسرزمین تھی۔ اس یونی ورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر شاہدمنیربہ نفس نفیس صبح سویرے ہمیں پنجاب یونی ورسٹی نیوکیمپس سے لے کر جھنگ روانہ ہوئے۔ ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کی یونی ورسٹی کے چاق و چوبند اور چمکتے چہروں والے طلباوطالبات، اساتذہ اور انتظامیہ کے ارکان نے تعظیم وتکریم اور گلابوں کے ساتھ ہمارااستقبال کیا۔ پارلیمانی سیکریٹری جناب امیرسلطان اور ڈاکٹر آصف اعوان بھی موجودتھے۔ ڈاکٹرشاہدمنیریوں تو کیمیکل انجینئر ہیں اور انہوں نے کول ٹیکنالوجی کے شعبے میں گراں قدرخدمات انجام دی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ادب دوست اور اقبال دوست شخصیت کے بھی حامل ہیں۔ اکثرلوگ ہمارے ناموں میں پائے جانے والے اشتراک کو ہمارے درمیان نسبی رشتے پر محمول کرتے ہیں۔ یہ رشتہ تو نہیں البتہ ہم دونوں کے درمیان پنجاب یونی ورسٹی میں رفیق کاررہنے اورحسن ِظن کا رشتہ ضرورہے۔ قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹرشاہدمنیرصاحب کا تعلق پروفیسریوسف سلیم چشتی صاحب کے خانوادے سے ہے۔ یوسف سلیم چشتی صاحب کو یہ امتیازحاصل ہے کہ انہوں نے پورے کلام اقبال کی شرح لکھی ہے۔ میں نے ڈاکٹرشاہدمنیرصاحب سے چشتی صاحب کی کوئی بات سننے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہاکہ چشتی صاحب نے انھیں بتایاتھاکہ کلام اقبال کی تشریح کے دوران انہیں جو مشکل مقام پیش آتے رہے انھیں وہ خود علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر حل کیاکرتے تھے۔ یہ ایساامتیازہے جو کلام اقبال کے کسی دوسرے شارح کو حاصل نہیں۔ ڈاکٹرشاہدمنیرکے اس تعلق کی جھلک جھنگ یونی ورسٹی اور ان کے اس روزکے خطاب میں بھی دکھائی دے رہی تھی۔ جھنگ یونی ورسٹی کو قائم ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ابھی اس کی عمرمحض پانچ برس ہے اوراس کامقابلہ ان جامعات سے ہے جو اپنی زندگی کی کئی کئی دہائیاں طے کرچکی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد منیرجامعہ جھنگ کے بانی وائس چانسلرہیں اور بانی بھی ایسے کہ ۲۰۱۸ء کے آخر میں جب ان کا تقرر بہ طوروائس چانسلرہواتو وہ اس یونی ورسٹی کے اکلوتے ملازم تھے۔ کوئی استاد، کوئی شاگرد، کوئی ملازم، کوئی گاڑی حتیٰ کہ یونی ورسٹی کے شایان عمارت تک نہ تھی۔ انھوں نے کمال مہارت سے دنوں میں عمارت بھی حاصل کرلی اور سٹوڈنٹس بھی۔ ریڈی میڈصورت میں سٹوڈنٹس گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آبادسے لیے اور عمارت لاہورکالج فارویمن یونی ورسٹی کے جھنگ کیمپس کوایچ ای سی کی رضاسے جامعہ جھنگ میں ضم کرکے۔ یونی ورسٹیاں محض عمارتوں اور طالب علموں سے نہیں بنتیں ان کی بقاکارازان کے آئینی اداروں اور کارتحقیق میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد نے دنوں میں بورڈ آف اسٹڈیز، سلیکشن بورڈ، اکیڈیمک کونسل سنڈیکیٹ جیسے اداروں کی تشکیل کو ممکن بنایا۔ یہی نہیں وہ اپنی یونی ورسٹی کا ریسرچ جرنل اور نیوزلیٹربھی جاری کرچکے ہیں اور متعدد کانفرنسیں، نمائشیں، مشاعرہ اور سیمینار بھی منعقدکرچکے ہیں۔ ان کی مساعی کا نتیجہ ہے کہ دوڈھائی سال کے نہایت کم عرصے میں بی ایس کے بارہ پروگرام شروع ہوچکے ہیں جن میں دوہزارسے زیادہ طلباوطالبات زیرتعلیم ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بھی شروع کیے جارہے ہیں۔
ڈاکٹرصاحب نے چونکہ ہمیں واپس لاہور پہنچانے کی ذمہ داری بھی لے رکھی تھی اس لیے ہمیں تقریب کے بعدبھی ان کے دفترمیں بیٹھنے، ان کے رفقاء کار سے ملنے اور ان کے اندازکار کویکھنے کا موقع ملا۔ اس روز وہ کتاب میلے آرٹ کی نمائش اور مشاعرے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ یوں محسوس ہوتاتھاکہ وہ سرتاپا یونی ورسٹی کے ترقیاتی کاموں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ دعاہے کہ صوفیااور دانش مندوں کے خطے میں قائم ہونے والی یہ یونی ورسٹی اپنے پرعزم وائس چانسلر کی قیادت میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے
اے خداین جامعہ قائم بدار
فیض اوجاری بولیل و نہار